نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتار 3 پولیس اہلکاروں کو واقعہ کے 2 چشم دید گواہوں نے جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کے روبرو شناخت کرلیا‫.

جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کے روبرو نقیب اللہ محسود قتل کیس میں گرفتار 3 پولیس اہلکاروں محمد اقبال، ارشد علی اور اللہ یار کو پیش کیا گیا‫ جبکہ واقعے کے 2 چشم دید گواہ قاسم اور حضرت علی بھی پیش ہوئے۔

عدالت کے روبرو تینوں پولیس اہلکاروں کو الگ الگ شناخت پریڈ کے لیے 9 ڈمیز کے ہمراہ پیش کیا گیا.

فاضل مجسٹریٹ کے روبرو پولیس نے سب سے پہلے کانسٹیبل محمد اقبال کو پیش کیا، جسے چشم دید گواہوں نے شناخت کرلیا۔

شناخت کے موقع پر انہوں نے موقف اپنایا کہ یہ پولیس اہلکار 3 جنوری کو اس موبائل کے ہمراہ سادہ لباس میں موجود تھا، جس میں انہیں حراست میں لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے انٹیلی جنس اداروں سے مدد طلب

پیشی کے دوران فاضل مجسٹریٹ نے ملزم پولیس اہلکار سے استفسار کیا کہ آپ کو شناخت پریڈ پر کوئی اعتراض تو نہیں؟

جس پر ملزم نے جواب دیا کہ انہیں شناخت پریڈ پر اعتراض تو نہیں تاہم وہ اس دن جنرل ڈیوٹی پر تھے.

عدالت میں پہلے ملزم کی شناخت پریڈ مکمل ہونے پر پولیس نے مقدمے میں گرفتار دوسرے پولیس اہلکار ہیڈ کانسٹیبل ارشد علی کو پیش کیا۔

اس دوران دونوں عینی شاہدین نے ملزم ارشد علی کو شناخت کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم اس موبائل میں موجود تھا جس میں ہمیں ہوٹل سے سچل چوکی منتقل کیا گیا‫۔

اس موقع پر ملزم پولیس اہلکار نے اعتراض اٹھایا کہ تھانے سے لاتے وقت گواہوں کو ان کے کپڑے دکھائے گئے، جس پر مجسٹریٹ نے ملزم سے استفسار کیا کہ کیا آپ کپڑے تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟

بعد ازاں فاضل مجسٹریٹ کے احکامات پر ملزم کے کپڑے بھی تبدیل کرائے گئے‫‫۔

دوسرے ملزم کی شناخت پریڈ مکمل ہونے کے بعد عدالت میں تیسرے ملزم اے ایس آئی اللہ یار کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔

اس دوران دونوں عینی شاہدین نے تیسرے ملزم کو بھی شناخت کرلیا اور عدالت کوبتایا کہ ملزم نے 3 جنوری کو سادہ لباس اہلکاروں کے ہمراہ انہیں شیر آغا ہوٹل سے حراست میں لیا تھا۔

فاضل مجسٹریٹ کے روبرو ملزم اللہ یار نے موقف اپنایا کہ گواہوں کے شناخت پر انہیں کوئی اعتراض نہیں تاہم گواہوں کی جانب سے دیا گیا بیان درست نہیں.

بعد ازاں مجسٹریٹ کے روبرو شناخت پریڈ مکمل ہونے پر تینوں گرفتار پولیس اہلکاروں کو تھانے منتقل کردیا گیا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں گرفتار 6 پولیس اہلکاروں کو 5 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔

واضح رہے کہ نقیب اللہ قتل کیس کے اہم ملزم معطل ایس ایس پی راؤ انوار ہیں جو تاحال مفرور ہیں جبکہ پولیس کی جانب سے ان کی گرفتاری کے لیے مختلف مقامات پر چھاپے بھی مارے گئے تھے۔

یہ بھی یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو 13 جنوری کو ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

یہ بھی پڑھیں: راؤ انوار کی گرفتاری کیلئے سندھ پولیس کو 72 گھنٹے کی مہلت

تاہم اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازعہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

بعد ازاں سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ معاملہ اٹھا تھا جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ اور بلاول بھٹو نے واقعے کا نوٹس لیا تھا اور تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

تحقیقات کے حکم کے بعد ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس میں ڈی آئی جی شرقی اور ڈی آئی جی جنوبی بھی شامل تھے۔

ابتدائی طور پر راؤ انورا اس کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے اور بیان ریکارڈ کرایا تھا، تاہم اس دوران آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کے احکامات کی روشنی میں انہیں معطل کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ نے نقیب اللہ قتل کا از خود نوٹس لیا جس پر سندھ پولیس کی تین رکنی کمیٹی نے 15 صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ پیش کی جس میں انکشاف کیا کہ نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں