تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربرا خادم حسین رضوی نے حکومت کو تنبیہ کی ہے کہ اگر فیض آباد دھرنے کے حوالے سے معاہدے پر عمل درآمد نہیں ہوا تو ملک بھر میں دوبارہ احتجاج کیا جائے گا۔

خادم حسین رضوی کی قیادت میں ٹی ایل پی کے کارکنان 3 اپریل سے داتا دربار کے باہر دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور حکومت کو ایک دن کی مہلت دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ معاہدہ ختم نبوت فیض آباد کو پورا کرے بصورت دیگر 4 اپریل کو چار بجے پریس کانفرنس میں راست اقدام کا اعلان کیا جائے گا۔

خادم حسین رضوی کا کہنا تھا کہ اگر فیض آباد میں جومطالبات حکومت نے ماننے کی یقین دہانی کروائی تھی وہ پورے نہ ہوئے تو ایک مرتبہ پھر ملک میں احتجاج کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں فیض آباد دھرنے کا اختتام ایک معاہدے کے ذریعے ہوا تھا جس کے تحت وفاقی وزیر قانون نے استعفیٰ دیا تھا جبکہ مظاہرین کے خلاف مقدمات واپس لینے کا بھی وعدہ کیا گیا اور معاہدے میں فوج کے ایک جنرل کے بھی دستخط تھے۔

خادم حسین رضوی نے دعویٰ کیا تھا انھوں نے معاہدہ فوج کی ثالثی پر کیا ہے۔

اسلام آباد کی عدالت نے 24 مارچ 2018 کو خادم حسین رضوی اور دیگر مظاہرین کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

فیض آباد دھرنا کیس: خادم حسین رضوی و دیگر اشتہاری قرار

قبل ازیں اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے فیض آباد دھرنا کیس میں مفرور ملزم تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی اور دیگر کو اشتہاری قرار دے دیا۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت ہوئی جہاں پولیس نے عدالت کو بتایا کہ خادم حسین رضوی کی طلبی کے اشتہارات چسپاں کیے گئے تھے تاہم وہ پیش نہیں ہوئے۔

اس سے قبل 24 مارچ 2018 کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت اور سول عدالت کی جانب سے فیض آباد دھرنا کیس اور دیگر 14 مقدمات میں مفرور ملزمان سمیت تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔

مزید پڑھیں: فیض آباد دھرنا: خادم حسین رضوی و دیگر کے وارنٹ گرفتاری جاری

اے ٹی سی کے جج شاہ رخ ارجمند نے اسلام آباد میں احتجاج کے حوالے سے 5 مقدمات میں ملزمان کی عدم حاضری پر وارنٹ جاری کیے تھے جو آئی نائن پولیس اسٹیشن میں خادم حسین رضوی اور دیگر کے خلاف درج کیے گئے تھے۔

مقدمات میں خادم حسین رضوی اوردیگر ساتھیوں پر دہشت گردی سمیت مختلف دفعات لگائی گئی ہیں۔

دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ ’عدالت نے اگر حکم دیا ہے تو خادم حسین رضوی کو گرفتار کرنا چاہیے۔‘

خیال رہے کہ فیض آباد دھرنے کے منتظمین پر اسلام آباد کے مختلف تھانوں میں 26 مقدمات درج ہیں جن میں سے 6 مقدمات میں پہلے ہی خادم رضوی سمیت دھرنے کے منتظمین کے وارنٹ جاری ہوچکے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس: عدالت کا خادم حسین رضوی کو گرفتار کرنے کا حکم

عدالت کی جانب سے خادم حسین رضوی کی عدم حاضری پر گزشتہ ماہ گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے تھے جبکہ کئی مرتبہ وارنٹ جاری کرنے کے باوجود تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

یاد رہے کہ 5 مارچ 2018 کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی سمیت مولانا افضل قادری، مولانا عنایت اور شیخ اظہر کے خلاف دائر فیض آباد کیس میں ملزمان کی عدم پیشی پر اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ 30 دن کے اندر اگر ملزمان پیش نہ ہوئے تو انہیں اشتہاری قرار دے دیا جائے گا۔

فیض آباد دھرنا

واضح رہے کہ اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: ’دھرنا ملزمان کی عدم پیشی کی صورت میں اشتہاری قرار دے دیا جائے گا‘

آپریشن کے خلاف اور مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، 27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کی رہائی کا آغاز ہوگیا اور ڈی جی پنجاب رینجرز میجر جنرل اظہر نوید کو، ایک ویڈیو میں رہا کیے جانے والے مظاہرین میں لفافے میں ایک، ایک ہزار روپے تقسیم کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں