اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی سمیت مولانا افضل قادری، مولانا عنایت اور شیخ اظہر کے خلاف دائر فیض آباد کیس میں ملزمان کی عدم پیشی پر اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ 30 دن کے اندر اگر ملزمان پیش نہ ہوئے تو انہیں اشتہاری قرار دے دیا جائے گا۔

فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت انسداد دہشت گری عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے کی۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں فیض آباد دھرنے سے متعلق مقدمات کی سماعت ہوئی جس میں عدالت نے ملزمان کی مسلسل عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ میں راجا ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ پیش

اس کے علاوہ عدالت نے ملزمان کی عدم پیشی پر اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ 30 دن کے اندر اگر ملزمان پیش نہ ہوئے تو انہیں اشتہاری قرار دے دیا جائے گا۔

اس سے قبل پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا تھا کہ چاروں ملزمان کے خلاف مقدمات درج ہیں لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہو رہے، جس پر عدالت نے پولیس کو آئندہ سماعت پر چالان جمع کرانے کی ہدایت کر دی اور ساتھ ہی عدالت نے مقدمے میں نامزد دیگر ملزمان کو بھی 19 مارچ کو طلب کرلیا۔

پراسیکیوٹر نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ آئندہ سماعت پر عدالت میں چالان جمع کرا دیں گے۔

خیال رہے کہ عدالت نے جن ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کے آغاز کا عندیہ دیا ہے ان میں تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسین رضوی سمیت مولانا افضل قادری، مولانا عنایت اور شیخ اظہر بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فیض آباد آپریشن: پولیس نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا

خادم حسین رضوی، افضل قادری اور مولانا عنایت مقدمہ نمبر 345 میں نامزد ملزمان ہیں جبکہ مقدمہ نمبر 334 اور 335 میں چاروں ملزمان نامزد ملزم ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 19 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی۔

فیض آباد دھرنا

واضح رہے کہ اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: معاہدے کی قانونی توثیق نہیں کی جاسکتی، جسٹس شوکت عزیز

آپریشن کے خلاف اور مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، 27 نومبر 2018 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کی رہائی کا آغاز ہوگیا اور ڈی جی پنجاب رینجرز میجر جنرل اظہر نوید کو، ایک ویڈیو میں رہا کیے جانے والے مظاہرین میں لفافے میں ایک، ایک ہزار روپے تقسیم کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں