شامی دارالحکومت دمشق کے نزدیک باغیوں کے زیرِ انتظام علاقے میں شامی فورسز کی جانب سے کیے گئے زہریلی گیس کے حملے سے بچوں سمیت 40 افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوگئے۔

شام میں کام کرنے والے اپوزیشن کارکنان اور ریسکیو عملے کا کہنا تھا کہ دمشق کے قریب ایک قصبے دوما میں حکومتی فورسز کی جانب سے 7 اپریل کی رات میں حملے کیے گئے۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اب تک ان حملوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔

شام میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ادارے وائٹ ہیلمٹس نے سب سے پہلے ان حملوں کی اطلاعات دیتے ہوئے بتایا تھا کہ باغیوں کے علاقوں میں پورے پورے خاندان اپنے گھروں اور پناہ گاہوں میں دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے۔

ادارے کا کہنا تھا کہ دم گھٹنے سے مرنے والوں کی تعداد 40 سے بھی زائد ہے، جبکہ زہریلی گیس کی وجہ سے متاثرہ افراد کی آنکھ کی پتلی بڑی ہوگئی اور ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی۔

مزید پڑھیں: شام: مشرقی غوطہ میں بمباری، ہلاکتیں 800 سے تجاوز کر گئیں

اپنے ایک بیان میں وائٹ ہیلمیٹس کا کہنا تھا کہ گیس میں کلورین جیسی بو بھی محسوس کی گئی جبکہ اس کی علامات کے بارے میں بتایا نہیں جاسکتا، تاہم یہ عام طور پر سیرین گیس کی طرح ہے۔

ادارے کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد 500 سے زائد افراد کو دم گھٹنے کی شکایات کا سامنا تھا جن کا علاج کیا گیا جبکہ مسلسل بم باری کی وجہ سے ایمبولینسز اور دیگر صحت سہولیات کو علاقے سے دور رکھا گیا۔

ادھر، بحالی کے کام کرنے والی شام میں امریکی میڈیکل سوسائٹی نے بھی تصدیق کی کہ زہریلی گیس کے حملے میں 41 افراد جاں بحق جبکہ 100 سے زائد زخمی ہوئے۔

شام میں انسانی حقوق کے نگراں ادارے کا کہنا ہے کہ دوما میں زہریلی گیس کے حملے میں 80 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں صرف 40 افراد ایسے ہیں جو دم گھٹنے سے موت کا شکار ہوئے۔

اے پی کے مطابق وائٹ ہیلمیٹس نے ایسی ویڈیوز شائع کی ہیں جن میں نومولود بچوں سمیت متاثرہ افراد کو آکسیجن ماسکس کے ذریعے سانس لیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شام میں 121 بچوں سمیت 510 شہری جاں بحق

شامی حکومت نے سرکاری خبر رساں ادارے پر ایک بیان جاری کیا، جس میں انہوں نے گیس اور کیمیائی حملے کے الزامات کو مسترد کردیا۔

شامی حکومت کا کہنا تھا کہ باغی گروپ کی جانب سے ان حملوں کے دعوے بے بنیاد ہیں اور یہ حکومتی فورسز کی پیش قدمی کو روکنے کی ناکام کوشش ہے۔

شامی حکومت کا کہنا تھا کہ ان کی فورسز تیزی کے ساتھ پیش قدمی کر رہی ہیں، اور ایسے میں انہیں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی ضرورت نہیں.

خیال رہے کہ شامی فورسز نے آرمی آف اسلام نامی تنظیم کے جنگوؤں کو نکالنے کے لیے 10 روزہ جنگ بندی معاہدہ ختم ہونے کے بعد 6 اپریل کو دوپہر سے دوبارہ باغیوں کے زیرِ اثر علاقے دوما میں کارروائی کا آغاز کیا۔

واضح رہے کہ دوما مشرقی غوطہ میں باغیوں کا آخری گڑھ ہے۔

مزید پڑھیں: شام: عفرین میں ترکی کی بمباری سے 36 جنگجو ہلاک

یاد رہے کہ یہ الزامات شامی حکومت کی جانب سے خان شیخون میں گزشتہ برس کیے گئے کیمیائی حملے کے بعد بھی سامنے آئے تھے جن میں درجنوں افراد مارے گئے تھے۔

خان شیخون حملے کے بعد امریکی فورسز نے شامی ایئربیس پر حملے کیے تھے جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کی وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حملے اس لیے کیے گئے ہیں تاکہ شامی فورسز دوبارہ کیمیائی ہتھیار استعمال نہ کرسکیں۔

تاہم شامی حکومت اور اس کے اتحادی روس نے امریکا کی جانب سے لگائے گئے ان الزامات کو مسترد کیا تھا۔

مشرقی غوطہ میں شامی فورسز کی جانب سے 2013 میں بھی ایک کیمیائی حملہ کیا گیا تھا جس میں سیکٹروں افراد مارے گئے تھے، جس نے امریکا کو شام پر حملے کے لیے مجبور کیا تاہم واشنگٹن نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں