کابل: طالبان کے ذرائع آمدن روکنے کے لیے امریکی اور افغان فورسز کی جانب سے طالبان کے منشیات کے اڈوں پر فضائی بمباری میں اضافہ کردیا گیا ہے۔

ملک میں منشیات کی صنعت کے ایک ماہر کے مطابق افغانستان میں، جو دنیا بھر میں ہیروئن کا اہم ذریعہ ہے، اس طرح کے فضائی حملوں سے طالبان کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچے گا تاہم اس سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل رہا ہے۔

منشیات کے اڈوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب افغانستان میں گزشتہ برس افیون کی پیداوار میں 87 فیصد ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا۔

امریکی حکام نے کہا کہ منشیات کی تجارت پر طالبان کا کنٹرول ہے جنہوں نے افغانستان میں امریکی فوج کی کمی کے بعد بڑے پیمانے پر علاقائی فوائد حاصل کیے ہیں۔

امریکی اور افغان افواج کی جانب سے ڈرامائی طور پر 2017 کے اوائل سے فضائی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ 2018 کے پہلے دو ماہ میں گزشتہ برس کی نسبت ہتھیاروں کی رسد میں تین گنا اضافہ کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان کے خلاف امریکی فضائی حملوں میں ریکارڈ اضافہ

امریکی فورسز کا کہنا تھا کہ امریکی فوج برائے افغانستان (یو ایس ایف او آر - اے) اور افغان فوج نے رواں ہفتے مغربی صوبوں فرح اور نمروز میں طالبان کے منشیات کے 11 پیداواری اڈوں کو نشانہ بنایا۔

طالبان کی آمدنی کے ذرائع کو محدود کرنے کے لیے مغربی افغانستان میں کی جانے والی یہ پہلی فضائی کارروائی تھی۔

میجر جنرل جیمز ہیکر کا کہنا تھا کہ طالبان کو معاشی نقصان پہنچا کر ہم ان کی دہشت گرد کارروائیوں کی صلاحیت کو بھی کم کر رہے ہیں۔

امریکی فوج برائے افغانستان کے مطابق منشیات کی پیداوار اور اس سے حاصل ہونے والے محصولات کی مد میں طالبان کو سالانہ 20 کروڑ ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔

منشیات کے کارخانوں کے خلاف کارروائی کا آغاز نومبر میں ہوا اور ہلمند میں خصوصی طور پر حملوں سمیت اب تک 75 فضائی حملے کیے گئے، ہلمند پوست کی کاشت کا سب بڑا صوبہ ہے، جس سے حاصل ہونے والے مادے ’افیون‘ سے ہیروئن تیار کی جاتی ہے۔

تاہم افغانستان کی افیون کے شعبے کے عہدیدار ڈیوڈ مینزفیلڈ کا کہنا تھا کہ منشیات کے ان اڈوں کو نشانہ بنانے سے طالبان کو قابل ذکر نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ ہیروئن سے حاصل ہونے والی آمدنی اور اس پر عائد ٹیکس اتنے زیادہ نہیں ہے جتنا امریکی فوج سوچ رہی ہے، جبکہ سادہ طرز پر بنے ہوئے یہ کارخانے دوبارہ تعمیر ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: ایک ہزار امریکی اہلکاروں کے خصوصی دستے کی تعیناتی پر غور

انہوں نے منشیات کے کارخانوں پر بمباری کو صرف ’انسداد منشیات کا ڈرامہ‘ قرر دیتے ہوئے کہا کہ اس سے طالبان کی آمدنی کو نقصان پہنچنے کے بجائے شہریوں کی ہلاکت کا خدشہ زیادہ ہے۔

اپنی ای میل میں ان کا کہنا تھا کہ منشیات کے ان فضائی حملوں کے ذریعے ہونے والے جانی نقصان کو خاطر میں نہیں لایا جارہا جبکہ ’یو ایس ایف او آر - اے‘ کے بیانیہ کے برعکس افغانستان کے دیہی علاقوں کے افراد ان اڈوں میں کام کرنے والوں کو طالبان نہیں بلکہ عام شہریوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔

یو ایس ایف او آر - اے کی ترجمان کرنل لیزا گارشیا کا کہنا ہے کہ ’ان حملوں کے نتیجے میں کوئی شہری زخمی نہیں ہوا بلکہ اس کا مقصد منشیات کی پیداوار اور نقل و حمل کو روکنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’جب منشیات کے یہ کارخانے دوبارہ تعمیر کیے جائیں گے تو ہمیں ان پر حملہ کرنا آسان ہوگا، طالبان کی مدد کرنے والے نیٹ ورک کی تباہی سے ان کی کارروائیوں میں کمی آئے گی اور وہ دفاعی پوزیشن میں آجائیں گے۔‘

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کا تمام ’اقوام‘ سے طالبان کے خلاف جنگ کا مطالبہ

دوسری جانب طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے اس بات کا انکار کیا کہ جنگجو منشیات کی آمدنی پر انحصار کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا ہم نے ایسی حکومت بنائی تھی جس میں منشیات کا صفایا کردیا گیا تھا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ امریکی اور غیر ملکی افواج پوست کی کاشت کے ذمہ دار ہیں اور امریکی کمانڈر خود اس میں ملوث ہیں۔


یہ خبر 9 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں