اسلام آباد: ایک جانب جہاں پاکستان اور افغانستان ایکشن پلان برائے امن و یکجہتی (اے پی اے پی پی ایس) کے تحت، دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی بہتری اور یکجہتی کے فروغ کے لیے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں وہیں دونوں اطراف سے الزامات کا نہ تھمنے والا سلسلہ بھی جاری ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بیجنگ سے اسکائپ پر میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ’افغانستان کی سرزمین پر موجود دہشت گرد عناصر مستقل ہماری سرحدی چوکیوں پر حملے کررہے ہیں‘۔

واضح رہے ترجمان، شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے لیے بیجنگ میں موجود ہیں اور ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی دوسرے ملک میں بیٹھ کر میڈیا کو بریفنگ دی گئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 7 اور 8 اپریل کو ہونے والے حملوں میں ہمارے دو جوان شہید جب کے متعدد زخمی ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم،افغان صدر کی ملاقات:انسداد دہشتگردی،علاقائی سلامتی پر گفتگو

یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا تھا جب گزشتہ ہفتے پاکستان کے وزیراعظم کابل کے دورے پر تھے اور پاک-افغان ایکشن پلان برائے امن و یکجہتی کے تحت مشترکہ لائحہ عمل مرتب کیا جارہا تھا۔

اس کے تحت دونوں ممالک اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف زمینی یا فضائی، کسی بھی قسم کی کارروائی میں استعمال نہیں ہونے دیں گے جبکہ الزامات کا سلسلہ بھی روک دیا جائے گا۔

لیکن اس سمجھوتے کے فوری بعد افغانستان کا بیان سامنے آیا، جس میں پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے دعوٰی کیا گیا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغان علاقوں میں بمباری کی۔

پاکستان کے وزیراعظم کے کامیاب دورہ کابل کے بعد لگائے گئے اس الزام کی پاکستان نے سختی سے تردید کی تاہم یہ سلسلہ جاری ہے اور رواں ہفتے ہی جاری کردہ ایک اور بیان میں افغانستان نے پاکستان پر صوبہ کنڑ میں 200 راکٹ فائر کرنے کا الزام لگایا ہے۔

ڈاکٹر فیصل نے ایک مرتبہ پھر ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’نہ ہم افغانستان میں داخل ہوئے نہ ہماری جانب سے کوئی کارروائی کی گئی‘۔

مزید پڑھیں: ’امریکا، پاک افغان تعلقات میں استحکام کا خواہاں‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرتے ہیں اور پاکستان کی جانب سے صرف دہشت گردوں کے خلاف جوابی کارروائی کی جاتی ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کے باعث بہت سے دہشت گردوں نے افغانستان میں اپنی پناہ گاہیں قائم کرلیں ہیں، جہاں سے وہ سرحدی چوکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق ماضی میں افغان انتظامیہ نے سرحدی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے حوالے سے پاکستان کی تشویش کو دور کیا تھا لیکن اس ضمن میں دیگر علاقوں میں بھی کارروائی کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب امریکی سفارتی اہلکار کی گاڑی کی ٹکر سے ہلاک ہونے والے نوجون کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تاحال اس واقعے سے متعلق پولیس کی رپورٹ کا انتظار ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 13 اپریل 2018 کو شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں