لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

حالیہ دنوں میں زیادہ تر توجہ تعلیم سے ہٹ کر معیارِ تعلیم پر مرکوز ہوگئی ہے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ عام طور پر ہمارے بچوں کو فراہم کی جارہی تعلیم کا معیار کافی خراب ہے۔ ہمارے پاس ایسے ٹیسٹ اسکورز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اس بات کا ثبوت ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب لوگ ’استاد‘ کے لیے خالی اسامیوں پر درخواست دیتے ہیں تو ہم بہتر اور باصلاحیت اساتذہ کا انتخاب نہیں کرپاتے۔ لوگ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ٹیچنگ کے لیے اپلائے کرتے ہیں، اس لیے ہمارے پاس بطور استاد ان کے تجربے کا جائزہ لینے کا کوئی طریقہ ہی نہیں ہوتا جس سے ہم یہ پتہ کرسکیں کہ آیا وہ بہتر استاد ثابت ہوں گے یا نہیں۔

تعلیم کے حوالے سے تجزیاتی مطالعہ کرنے سے یہ بات کافی حد تک واضح ہوتی ہے کہ امیدواروں کے تعلیمی پس منظر اور ٹیچنگ اسناد کی بنیاد پر کیے جانے والے انتخاب کے ذریعے آپ کو بہت ہی کم اندازہ ہوپاتا ہے کہ وہ اچھے اساتذہ ثابت ہوں گے یا نہیں۔ لہٰذا اساتذہ کی سلیکشن کے لیے ٹیسٹ کروانے یا تعلیمی ضروریات کو بڑھانے کے باوجود بھی اساتذہ کا معیار بہتر نہیں ہوسکتا۔

پڑھیے: تعلیمی معیار کی پسماندگی میں امتحانی نظام کا کردار

لیکن، ہاں ہم 2 سے 3 برس کے ٹیچنگ کریئر کا موقع دے کر خراب اساتذہ کو ’نکال‘ سکتے ہیں۔ ایک بار تعلیم کے حوالے سے تجزیاتی مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ہم مختلف پیمانوں کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف پہلے سے موجود ٹیچرز میں سے اچھے ٹیچرز کا پتہ لگاسکتے ہیں بلکہ اگر ہمارے پاس 2 سے 3 سال کی پروبیشن مدت ہو تو خراب ٹیچرز کو فارغ بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم پاس ہونے والے اساتذہ کی ہر کھیپ کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کریں تو ہم چند ہی برسوں میں اساتذہ کا معیار کافی حد تک بہتر کرسکتے ہیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے سرکاری شعبے میں کسی کو بھرتی کرنے کے بعد اسے پکا کرنے سے انکار بہت زیادہ دشواری کا سبب بنتا ہے۔ بھلے وہ بھرتی پروبیشن پر ہی کیوں نہ کی گئی ہو۔ کم از کم پنجاب میں یہ صورتحال ہے کہ وہاں اساتذہ کو بھرتی کرنے کے 3 سال کی پروبیشن مدت کے بعد ان کی کارکردگی کا جائزہ لیے بغیر ہی تمام کو ’پکا‘ کردیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر بُرے اساتذہ کا پتہ لگانے کے لیے سلیکشن اور پروبیشن مدتوں کا سہارا نہیں لیا جاسکتا تو ہم بہتر استاد بننے کے لیے حوصلہ افزائی اور ان کی تربیت کرنے کی امید ہی کرسکتے ہیں۔

اساتذہ کی ٹریننگ کے حوالے سے بھی کوئی خاطر خواہ مسئلے کا حل ملتا نظر نہیں نہیں آتا۔ عام طور پر، ٹیچر ٹریننگ پر جتنی لاگت آتی ہے اس کے مقابلے میں کافی حد تک کم اور غیر مستقل نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ ہاں ہم نے یہ ضرور پایا ہے کہ اگر ٹریننگ حاصل کرنے والے کو اس کی ضروریات کے مطابق تربیت دی جائے تو یہ بہت زیادہ اثرانداز ثابت ہوگا۔ تمام افراد کو ایک جیسی تربیت دینے سے اچھے نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ ہم تو پہلے ہی اساتذہ کی ایک بڑی تعداد بھرتی کر رہے ہیں ایسے میں ہم ہر کسی کی ضرورت کے مطابق ٹریننگ کیسے کرواسکتے ہیں؟ پاکستان میں کم وبیش 8 لاکھ سرکاری اساتذہ ہیں۔ ہم کس طرح کچھ کو بہتر معیار کے ساتھ اور کچھ کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق ٹریننگ کا انتظام کرسکتے ہیں؟

پڑھیے: ذریعہ تعلیم کیا ہونا چاہئے؟

پاکستان میں روایتی ٹیچر ٹریننگ پروگرامز میں ہر کسی کو ایک جیسی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ جب اساتذہ سرکاری شعبے سے وابستہ ہوتے تو انہیں ابتدائی ٹریننگ دی جاتی تھی، اس ٹریننگ کا معیار ایسا رکھنا پڑتا تھا کہ تمام اساتذہ کی ٹریننگ کی جاسکے۔ ابتدائی ٹریننگ کا معیار اب تک کافی مساوی ہے۔

صوبوں نے بھی اساتذہ کی مدد کے لیے ان کے پورے کریئر کے دوران سلسلہ وار پروفیشنل ڈیولپمنٹ پروگرامز کا انعقاد شروع کردیا ہے۔ ابتدائی طور پر تو پروگرامز میں سب کو مساوی انداز میں ٹریننگ دی جانے لگی۔ ٹریننگ کے ذریعے ہر ایک مضمون کے لیے، عام تدریسی اور پڑھائے جانے والے مواد میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی جاتی جن کا جائزہ لینے کی ضرورت پڑتی اور پھر معیاری پروگرامز کے ذریعے ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی۔

ایسے پروگرامز برسوں سے جاری ہیں۔ ان کا اندرونی اور بیرونی سطح سے جائزہ لینے کے بعد پتہ چلا کہ مخصوص کمزوریوں، کلاس روم پریکٹس اور طلبہ کے پڑھنے کی بہتری کے حوالے سے کافی محدود اثرانداز ثابت ہوئے ہیں۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پنجاب نے حال ہی میں ’اسپیشلسٹ یا ماہرین‘ پر محیط سسٹم کا تجربہ شروع کردیا ہے۔ یہ ایک انفرادی سطح کے پروگرام کی طرف ایک قدم ہے۔ 20 ہزار جتنی بڑی تعداد میں مضامین سے متعلق ماہرین کو یوں ایک ساتھ بھرتی کرکے پنجاب ماہرین کو اساتذہ کے مزید قریب لارہا ہے۔ یہ پروگرام کتنا فائدہ مند ہوگا یہ تو ابھی نہیں کہا جاسکتا مگر اس کے چند حصوں پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔

جن مضامین کے ماہرین کو بھرتی کیا گیا ہے وہ بھی قابلیت کے لحاظ سے کم و بیش اسی پس منظر سے آئے ہیں جہاں سے باقی اساتذہ آئے ہیں، لہٰذا انہیں بھی شاید ان جیسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مضامین کے ماہرین کا معیار بھی ایک دوسرے سے الگ ہوگا۔ قائدِاعظم اکیڈمی فار ایجوکیشنل ڈولپمنٹ، پنجاب کی ٹیچر ٹریننگ کروانے والی انتظامیہ زیادہ معیاری تربیتی ماڈیولز کے ذریعے یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کررہی ہے، جنہیں بعد میں ماہرین کے ساتھ شئیر کیا جائے گا۔ اور پھر وہ ماہرین کسی ایک خاص استاد کی ضرورت کے مطابق تربیتی ماڈیولز کا انتخاب کرسکتا ہے۔

پڑھیے: پرائیوٹ اسکول ہے تو اچھا ہی ہوگا! اس غلط فہمی کو دور کرلیجیے

پنجاب کے پروگرام کا بغور مشاہدہ کرنے اور اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کیا اس سے انفرادی حیثیت کے ساتھ تربیت اور مطلوبہ بہتر معیار کے درمیان توازن قائم رکھنے میں کامیاب ہوں گے؟ یہ ایک ضروری سوال ہے جس کا جواب آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مگر اس پروگرام پر کی جانے والی سرمایہ کاری کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ بار بار اور سختی کے ساتھ جائزہ لیا جائے کہ اس پروگرام کو وقت کے ساتھ مزید کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

جدید ہوتی ٹیکنالوجی نے دیگر امکانات کو بھی روشن کردیا ہے۔ حکومتیں، تمام صوبوں کے اسکولوں میں ٹیبلٹ اور کمپیوٹرز متعارف کروارہی ہیں۔ اس طرح اساتذہ کے لیے انٹرنیٹ سے براہِ راست معیاری مواد حاصل کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔

انفرادی سطح پر استاد کی ضروریات کا جائزہ، اصلاح کے لیے معیاری مواد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس قسم کے اقدامات سے فائدہ ہوا ہے یا نہیں، اور یہ سب کام انٹرنیٹ کے ذریعے کیے جاسکتے ہیں۔ ہم ایک ہائبرڈ ماڈل کا بھی سوچ سکتے ہیں جس میں ماہرین کی مدد کے لیے ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جائے اور پھر وہی ماہرین بعد میں اساتذہ کی مدد کریں۔

تجزیاتی مطالعہ واضح کرتا ہے طلبہ کی پڑھائی کے لیے اچھے اساتذہ کا ہونا ضروری ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اچھے اساتذہ کہاں سے لائے جائیں اور ان کی کس طرح مدد کی جائے کہ وہ بہتر انداز میں اپنا تدریسی کام انجام دیں، کیونکہ معیار کی بنیاد پر اساتذہ کا انتخاب تو ممکن نظر نہیں آتا۔ ہمارے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ جس سے ہمیں معلوم ہوجائے کہ کون اچھا استاد بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پاس اساتذہ کا تدریسی انداز بہتر کرنے کا واحد آپشن یہ ہے کہ ان کی تربیت کی جائے۔ سرکاری تعلیمی نظام کے حجم کو مدنظر رکھا جائے تو یہ کسی صورت معمولی مسئلہ نہیں۔ ہم آخر کس طرح اتنے بڑے نظام میں معیار کی بہتری کی ضرورت اور انفرادی حیثیت میں ضروریات کو کس طرح پورا کرسکتے ہیں۔

ماہرین کی ٹریننگ کے حوالے سے پنجاب کا تجربہ کس قدر سود مند ثابت ہوتا ہے یہ ابھی دیکھنا باقی ہے اور ٹیکنالوجی کے آپشنز کے حوالے سے بھی ابھی مکمل طور پر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ہمارے پاس مسئلے کو حل کرنے کا کوئی ٹھوس طریقہ موجود نہیں ہے۔ جب تک کوئی ٹھوس طریقہ نہیں ملتا تب تک یہ تعین کرنا بہت مشکل نظر آتا کہ کس طرح سرکاری شعبے میں معیارِ تعلیم میں نمایاں حد تک بہتری لائی جاسکتی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون 20 اپریل 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

رانا ااحسان الہی Apr 21, 2018 07:55pm
اسلام علیکم محترم آپکا کالم پڑھ کر مجھے اظہار خیال کا موقع ملا ۔اور پرمسرت ہوں کوئی تو ہے جو اس شعبے پر توجہ دلارہا ہے بذات خود میں EST ٹیچر ہوں جن ٹریننگز کی آپ بات کر رہے ہیں وہ تو کرپشن کی نظر ہو جاتی ہیں اور ایک استاد کی سیلری سن کر سب شرماجاتے ہیں کہ ایسے شعبے میں آنےسے بہتر تھا کہ دکان کھول لیتے ۔ جہا ں استاتذہ کی قدر ہی نہیں وہاں یہ ٹریننگز بے سود ہیں ٹریننگز کی جگہ استاتذہ کی سیلری بڑھادیں تو ذیادہ بہتر نتائج حاصل ہونا شروع ہو جائینگے