اسلام آباد ہائی کورٹ نے گھریلو ملازمہ طیبہ تشدد کیس میں سابق جج راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ کو سنائی گئی ایک، ایک سال قید اور 50، 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا معطل کردی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی ڈویژن بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

واضح رہے کہ کیس میں ملزم جج راجا خرم علی خان اور ان کی اہلیہ ماہین نے ٹرائل کورٹ کے سنائے گئے فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس: سابق جج راجا خرم اور اہلیہ کی درخواست ضمانت منظور

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے طیبہ تشدد کیس میں بطور ٹرائل کورٹ ملزمان کو سزا سنائی تھی۔

دوران سماعت عدالت میں راجا خرم علی خان اور ماہین کی جانب سے راجا رضوان عباسی اور سہیل وڑائچ ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

عدالت نے سزاؤں کو معطل کرتے ہوئے اپیل کی سماعت کو مئی کے دوسرے ہفتے تک کے لیے ملتوی کر دی۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ 27 دسمبر 2016 کو اسلام آباد کی گھریلو ملازمہ طیبہ پر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر میں تشدد کا واقعہ منظرعام پر آیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس کا ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوگا

پولیس نے 29 دسمبر کو جج راجا خرم اور ان کی اہلیہ کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا اور دونوں افراد کے خلاف تھانہ آئی نائن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

تاہم 3 مارچ 2017 کو طیبہ کے والدین نے راجا خرم اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا تھا، تاہم اس صلح نامے کی خبر نشر ہونے کے بعد چیف جسٹس نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا۔

چیف جسٹس نے رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ کو حکم دیا تھا کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر اندر معاملے کی تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے ملازمہ پر 'تشدد' کا از خود نوٹس لے لیا

بعد ازاں 8 جنوری 2017 کو سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس نے طیبہ کو بازیاب کرا کے عدالت میں پیش کیا تھا، جس کے بعد عدالتی حکم پر 12 جنوری کو جج راجا خرم کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا تھا۔

اس کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیس کا ٹرائل اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا، جہاں متعدد سماعتوں کے بعد 16 مئی 2017 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات اکثر میڈیا پر رپورٹ نہیں ہوتے تاہم طیبہ تشدد کا واقعہ سامنے آنے کے بعد ملازمین پر تشدد سے متعلق متعدد واقعات نہ صرف میڈیا پر رپورٹ ہوئے بلکہ ان پر ملزمان کو مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

اسی طرح مارچ 2017 میں ملتان میں بھی ایک کم سن گھریلو ملازمہ کو بدترین تشدد کا نشانہ کا واقعہ رپورٹ ہوا تھا۔

واضح رہے کہ پنجاب حکومت کی جانب سے گھریلو تشدد کے واقعات کے خلاف تحفظِ نسواں جیسے بل بھی منظور ہوچکے ہیں لیکن عام خیال یہی ہے کہ ان قوانین پر مناسب عملدرآمد نہ ہونے کے باعث آج بھی متعد ملازمین ایسے واقعات کا نشانہ بن رہے ہیں۔

بعد ازاں 17 اپریل 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے کیس کے ملزمان کے خلاف ایک ایک سال قید اور 50، 50 ہزار جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

سزا سنائے جانے کے بعد ملزم راجہ خرم علی خان کی جانب سے سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کے لیے ضمانت طلب کی گئی تھی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے انہیں ایک ہفتے کے اندر اپیل دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں