اسلام آباد: صوبہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے وزراء اعلیٰ نے قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) کے اجلاس سے واک آوٹ کیا، اس حوالے سے انہوں نے موقف اختیار کیا کہ وفاق نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں صوبائی اسکمیز کو شامل نہیں کیا جس کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں جاری اجلاس میں بیٹھنے کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔

تینوں وزرا اعلیٰ کا موقف تھا کہ ملک کے سب سے بڑے اقتصادی معاملات پر فیصلہ کرنے والی باڈی کا کورم مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اگلے سال کا ترقیاتی بجٹ مںظور نہیں ہو سکتا۔

یہ پڑھیں: ترقیاتی منصوبوں پر عوامی نمائندوں کے نام کی تختیاں لگانے پر پابندی عائد

دوسری جانب وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ این ای سی نے قومی اسمبلی سے مںظور شدہ ترقیاتی منصوبوں کا ‘جائزہ لیا اور نوٹ کیا’ ہے تاہم آئین کی رو سے ضروری نہیں کہ وفاق، صوبائی سالانہ ڈیولپمنٹ پلانز (اے ڈی پی ایس) کی منظوری دے اور وفاق پی ایس ڈی پی کے لیے صوبائی حمایت حاصل کرے۔

وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل نے ڈان کو بتایا کہ ‘وفاقی پی ایس ڈی پی اور صوبائی اے ڈی پی ایس کے لیے این ای سی کی منظوری ضروری نہیں کیونکہ پی ایس ڈی پی وفاقی بجٹ ہے جس کی منظوری پارلیمنٹ سے حاصل کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘اسی طرح 18ویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتیں صوبوں میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے اپنے وسائل اور اے ڈی پی ایس کا جائزہ لیں۔

سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ‘این ای سی کے 13 ارکان پر مشتمل اجلاس میں 9 ارکان نے شرکت کی، صوبائی تحفظات کے باعث ان میں سے 5 واک آوٹ کرگئے جس کے بعد این ای سی میں 4 ارکان باقی رہے تاہم اب وفاقی حکومت ترقیاتی منصوبوں کی منظور نہیں دے سکتی‘۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نے سرکاری بھرتیوں پر پابندی عائد کردی

ان کا کہنا تھا کہ صوبوں نے زوردیا کہ پی ایس ڈی پی میں کوئی نئی اسکیم شامل نہ کی جائے کیونکہ اسمبلی کی مدت 31 مئی کو ختم ہو رہی ہے تاہم اجلاس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ‘پی ایس ڈی پی میں صرف جاری منصوبوں کو شامل کیا جائے’۔

اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ ‘اگر پی ایس ڈی پی میں نئے منصوبے شامل کیے جائیں گے تو دیگر صوبائی منصوبوں کو بھی برابری کی سطح پر دیکھا جائے’۔

سید مراد علی شاہ نے واضح کیا کہ وفاقی حکومت غیر آئینی رویہ اختیار کرتے ہوئے اگلی حکومت کے لیے پورے سال کا بجٹ پیش کررہی ہے جبکہ حکومت کی مدت ختم ہونے میں ایک ماہ باقی ہے۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ اور ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ بجٹ تین ماہ کا نہیں بنایا جا سکتا اور یہ پورے سال کا ہوتا ہے، بعض صوبے چاہتے ہیں کہ صوبائی اسکیموں کو پی ایس ڈی پی میں شامل کیا جائے جبکہ 18 ویں ترمیم کے تحت صوبائی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی اسکیمیں خود مکمل کریں۔

مزید پڑھیں: ’ملک کی بہتری کیلئے چیف جسٹس کے پاس فریادی بن کر گیا‘

انہوں نے واضح کیا کہ پی ایس ڈی پی قومی انفراسٹرکچر کی ضرورت کو پورا کرتا ہے جس میں صوبائی منصوبوں کو شامل کرنا وفاق کی ذمہ داری نہیں تاہم بعض پسماندہ صوبوں اور علاقوں کی مدد جاری رہتی ہے۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کررہی اور اگلی حکومت کے لیے بجٹ کی تشکیل کررہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ان کی حکومت نے بجٹ سیشن سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کے لیے اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں آگے کے لائحہ عمل پر غور ہوگا لیکن یہ واضح ہے کہ کرنٹ اخراجات جیساکہ تنخواہیں وغیرہ کے لیے بجٹ کی منظوردے دی جائے گی‘۔

اس ضمن میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے کہا وفاق نے پی ایس ڈی پی میں صوبائی حکومتوں کی سفارشات پر غور نہیں کیا اس لیے فورم کا حصہ بنانا لاحاصل ہے، انہوں ںے مزید کہا کہ وفاق اپنے منصوبوں کے لیے تمام اقدامات اٹھارہا ہے جس کی اس وقت آئین میں کوئی گنجائش نہیں۔

وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ اجلاس میں جاری بریفنگ کے پہلے مرحلے میں ہی وزیراعلیٰ سندھ نے کہہ دیا تھا کہ وفاق کی جانب سے پی ایس ڈی پی میں صوبائی اسکمیوں کو شامل نہ کرنے کے بعد صوبوں کے لیے اجلاس میں بیٹھنا قبول نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘بعدازاں اس کی وضاحت کر دی گئی تھی کہ پی ایس ڈی پی میں شامل 95 فیصد منصوبے گزشتہ سال کے ہیں جنہیں قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کی منظوری درکار تھی جبکہ 5 فیصد نئے منصوبوں میں بھاشا ڈیم ہے جس کے لیے 23 ارب روپے مختص کردیئے گئے ہیں اور مذکورہ منصوبہ وفاق کا ہے اور نہ ہی صوبوں کا بلکہ یہ مشترکہ مفاد کا حامل ہے۔

وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ نے بتایا کہ ‘خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ نے الزام عائد کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے امیر مقام کی ایما پر ان کے صوبے میں ترقیاتی منصوبہ تشکیل دیا جارہا ہے جبکہ سندھ کے وزیراعلیٰ نے نوشیرو فروز میں جاری اسکمیوں سے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور جواز پیش کیا کہ مذکورہ منصوبہ وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی کے حلقے میں جاری ہے۔


یہ خبر 25 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں