سندھ کے ضلع عمرکوٹ میں ایک جواں سال لڑکی مبینہ طور پر پولیس کی حراست سے لاپتہ ہوگئیں جبکہ لڑکی کے اہل خانہ نے پولیس پر الزام عائد کیا ہے کہ بچی کو ایک جاگیردار کے حوالے کردیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق ایک ہفتہ قبل 18 اپریل کو عمر کوٹ ویمن پولیس اسٹیشن کی ایس ایچ او خوش بخت نے مبینہ طور پر ہاشم پالی گاوں میں لڑکی کے گھر پر چھاپہ مارا اور تین خواتین سمیت 5 افراد کو کم سن بچوں کی شادی کے الزام پر گرفتار کرلیا تھا۔

پولیس کی جانب سے حراست میں لیے گئے افراد میں 13 سالہ لڑکی بھی شامل تھی جو دلہن بنی ہوئی تھیں تاکہ الزامات کی تصدیق کی جاسکے تاہم لڑکی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اس دن سے ہی ان کی بچی لاپتہ ہیں۔

انسپکٹرجنرل (آئی جی) سندھ اے ڈی خواجہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے لڑکی کی بازیابی اور واقعے کی تفتیش کا حکم دیا تھا۔

تشکیل دی گئی کمیٹی میں ڈی آئی جی مظہر شیخ، ایس آئی پی خلیل قمبر اور خاتون ایس ایچ او خوش بخت شامل ہیں۔

لڑکی کے والدین نے پولیس کے خلاف الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی بچی کو شادی کے غلط الزام لگا کر حراست میں لیا گیا اور پولیس نے مقامی بااثر شخص کے اکسانے پر لے جایا گیا ہے جو برا ارادہ رکھتا ہے۔

لڑکی کے والدین نے لڑکی کو بااثر جاگیر دار فیض محمد پالی اور سیف اللہ کے حوالے کرنا الزام پولیس پر عائد کیا جو ان کے مطابق پولیس کے ساتھ مل کر نئی شادی شدہ لڑکیوں کو اغوا کرتے ہیں۔

دوسری جانب فیض محمد پالی نے ڈان کو بتایا کہ انھیں معلوم ہوا تھا کہ بچی کی شادی ہورہی ہے اور اس شادی کو رکوانے کی غرض سے پولیس کو آگاہ کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ لڑکی کے اہل خانہ ان پر جھوٹا الزام عائد کررہے ہیں۔

فیض محمد پالی نے کہا کہ لڑکی کے اہل خانہ اب خود کو بچانے کے لیے اس تقریب کو اس کی منگنی اور بھائی کی شادی قرار دے رہے ہیں حالانکہ کم سن بچی کی بھی شادی ہورہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ لڑکی کو وہاں سے بچا کر پولیس اسٹیشن لایا گیا تھا اور والدین اور ان سے بچی کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے نہ کرنے کے لیے بیان پر دستخط لیے گئے تھے۔

جاگیردار نے کہا کہ اگلے دن لڑکی کے اہل خانہ ہاشم پالی گاوں سے سمارو کے قریب گاوں غلام نبی شاہ چلے گئے جو عمر کوٹ کی حدود سے باہر ہے اور وہاں پر انھوں نے اپنی مرضی کے مطابق لڑکی کی شادی کردی۔

انھوں نے لڑکی کے والدین کے حوالے سے مزید کہا کہ انھوں نے لڑکی کو چھپایا ہوا ہے اور ان پر الزامات عائد کررہے ہیں تاکہ اس خاندان پر دائر دوسرے کیس کو واپس لینے کے لیے دباو ڈالا جاسکے۔

فیض محمد پالی کے مطابق انھوں نے ہندوبرادری کوہلی سے تعلق رکھنے والے ایک لڑکی کو مبینہ طور پر اغوا کرکے زبردستی مذہب تبدیلی کروانے پر لاپتہ لڑکی کے اہل خانہ سے آزاد کروایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف مقدمہ دائر کیا جاچکا ہے اور سندھ ہائی کورٹ میں اس کی سماعت بھی ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ یہ ‘لڑکی کے اہل خانہ کی جانب سے ایک ڈراما ہے جس کا مقصد مجھے کوہلی برادری کے کیس کو واپس لینے اور بدلہ لینے کے دباو ڈالنا ہے'۔

سماجی کارکن عبدالکریم منگریو کا کہنا تھا کہ عمر کوٹ میں نابالغ لڑکیوں کی شادی اور فروخت عروج پر ہے جبکہ اس حوالے سے قانون موجود ہے لیکن اس کو نافذ نہیں کیا جارہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں