کراچی: فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے صدر غضنفر بلور نے حکومت پر زور دیا ہے کہ اگر حکومت واجبات کی ادائیگی میں تاخیری حربے اختیار کرے گی تو مجبوراً ٹریڈ اینڈ انڈسٹری، عدالت عظمیٰ کے دروازے پر دستک دے گی۔

فیڈریشن ہاؤس میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں سیلز اور انکم ٹیکس کے مقابلے میں واجبات کی ادائیگی ایک سنگین تنازع بن چکا ہے۔

یہ پڑھیں: ‘تنخواہ دار ملازمین کے لیے بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں‘

وفاقی وزیر برائے خزانہ کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ بجٹ میں واجب الادا رقم کے حوالے سے کوئی مثبت اقدامات کی بات نہیں کی جس کے بعد ہمارے پاس سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ نومںتخب وزیر خزانہ نے ایف پی سی سی آئی کے وفد کو اسلام آباد مدعو کیا ہے تاکہ مذکورہ مسئلے کے حل پر بات کی جا سکے۔

اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ایف پی سی سی آئی، چیمبر کے دیگر اراکین سے مشاورت کے بعد وفد تشکیل دے گا جو وزیر خزانہ سے بدھ یا جمعرات کو ملاقات کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ میں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کا شعبہ حکومتی ترجیحات سے محروم

اس کے ساتھ ہی غضنفر بلور نے امید ظاہر کی کہ اسلام آباد میں ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں مسئلے کا حل نکل آئے گا۔

فیڈریشن کے صدر نے مزید کہا کہ بجٹ میں کمی بیشی کی نشاندہی کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی جارہی ہیں اور وزیر خزانہ ایف پی سی سی آئی کا دورہ کرکے تاجر برادری کے مسائل پر بات کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘بجٹ 19-2018 تاجر برادری کے لیے بہت مفید ہوگا تاہم ملکی معشیت کے وسیع ترمفاد کے لیے بے ضابطگیوں کا خاتمہ ضروری ہے’۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن جماعتوں کا بجٹ اجلاس سے واک آوٹ

اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں سیلز اور انکم ٹیکس کی مد میں واجبات کی ادائیگی کا فرق یعنی 400 ارب روپے ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔


یہ خبر 29 اپریل 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں