اسلام آباد: پاک فوج اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے درمیان رابطے سے جہاں کچھ شکایات کے حل ہونے میں مدد ملی تھی، وہیں جوش و جذبے کے ساتھ شروع ہونے والے یہ مذاکرات تعطل کا شکار نظر آرہے ہیں اور کئی ہفتوں سے اس حوالے سے کوئی پیش رفت بھی سامنے نہیں آسکی۔

فوجی حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ دنوں فریقین کے درمیان رابطہ پی ٹی ایم کی درخواست پر اس وقت شروع کیا گیا تھا جب انہوں نے کراچی میں ماورائے عدالت قتل کیے گئے نقیب اللہ محسوس معاملے پر اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر دھرنا دیا تھا۔

نقیب محسود کو انصاف دو کے نام سے جاری اس مہم میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی گرفتاری اور ان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف ہونے والے اس دھرنے نے بعد میں محسود تحفظ موومنٹ کو پشتون تحفظ موومنٹ میں تبدیل کردیا۔

نیشنل پریس کلب پر جاری اس دھرنے سے یہی پیغام دیا جارہا تھا کہ منظور پشتین اور اس کے ساتھی ہی اصل نمائندہ ہیں اور یہ دھرنا پاک فوج کے ترجمان سے ملاقات کے بعد ختم ہوجائے گا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی ایم کا لاپتہ افراد کی بازیابی اور پختونوں کو بنیادی حقوق دینے کا مطالبہ

اس تمام صورتحال پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کافی مثبت جواب دیا گیا تھا اور 8 فروری کو منظور پشتین، محسن داور سمیت پی ٹی ایم کے 15 رکنی وفد نے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور سے ملاقات کی تھی۔

ملاقات میں پیش کیے گئے 5 مطالبات کے حوالے سے ڈان کو بتایا گیا تھا کہ اس ملاقات میں پیش کیے گئے مطالبات میں راؤ انوار کی پھانسی، پختونوں کے ماورائے عدالت قتل پر جوڈیشل کمیشن بنانے، لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے اور بے گناہوں کو آزاد کرنے، وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) سے کرفیو ہٹانے یا مقامی لوگوں پر تشدد روکنے اور فاٹا، خاص طور پر وزیرستان میں محسود آبادیوں سے بارودی سرنگوں کی صفائی شامل تھے۔

دوسری جانب اس معاملے پر پاک فوج کے حکام نے کہا تھا کہ یہ ملاقات اچھی رہی اور پی ٹی ایم رہنماؤں کی جنوبی اور شمالی وزیرستان کے جنرل آفیسرز کمانڈنگ (جی او سیز) سے مزید ملاقاتیں ہوں گی جو ڈی جی آئی ایس پی آر کی وساطت سے اسی روز طے کرلی گئی تھی۔

بعد ازاں 15 اور 17 فروری کو دو ملاقاتیں ہوئی تھی اور 15 فروری کی ملاقات میں اہم معاملے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے وطن کارڈ کو ختم کردیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ وزیرستان سے بے گھر ہونے والے افراد کو معاوضہ دینے کے لیے ابتدائی طور پر شناختی دستاویز کے طور پر وطن کارڈ متعارف کرایا گیا تھا جسے بعد میں واپس آنے والے آئی ڈی پیز کی تصدیق کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

اس ملاقات کے بعد پی ٹی ایم کے رہنما محسن داور نے اپنے ایک دوست کو بتایا تھا کہ ‘وطن کارڈ کا معاملہ حل ہوگیا ہے جبکہ دیگر معاملات پر بھی بات چیت کی گئی ہے، جن میں سے کچھ حل کرلیے گئے جبکہ کچھ میں تھوڑا وقت لگے گا اور ہم اس کا انتظار کر رہے ہیں۔

اس ملاقات میں تقریباً ایک درجن سے زائد معاملات اتفاق رائے کے قریب پہنچ گئے تھے اور جن معاملات کو سامنے رکھا گیا تھا ان میں کرفیو نافذ نہیں کرنا، چیک پوسٹس پر اچھا برتاؤ کرنا، لاپتہ افراد کے معاملے پر کوئی طریقہ کار بنانا، افغانستان کے ساتھ تجارت کے لیے غلام خان ٹریڈ روٹ کھولنا، سیاسی سرگرمیوں پر پابندی ہٹانا، شاہوال میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنا، مواصلاتی رابطوں کو بحال کرنا اور بینک برانچز کھولنا شامل تھے۔

اس حوالے سے فاٹا یوتھ جرگے کے چیئرمین ارشد آفریدی کا کہنا تھا کہ ‘فوج کا مقامی قبائلی لوگوں کے ساتھ رویہ مثبت ہے اور یہ اہم پیش رفت ہے‘۔

دوسری جانب اس تحریک کے سب سے اہم مطالبے میں بھی پیش رفت دیکھی گئی اور نقیب اللہ محسود کے قتل پر بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے راؤ انوار کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ان کے خلاف مقدمے کا آغاز ہوا۔

اس معاملے پر نقیب اللہ کے کزن نور رحمٰن نے ڈان کو بتایا کہ متاثرہ خاندان جے آئی ٹی رپورٹ سے مطمئن ہے اور انہیں اس میں پیش رفت کی مزید امید ہے جبکہ جے آئی ٹی نے ہمارے موقف کی تصدیق کردی۔

علاوہ ازیں 17 فروری کو منظور پشتین نے جنوبی وزیرستان کے جی او سی سے ملاقات بھی کی لیکن بعد ازاں ان کا نظریہ مکمل تبدیل ہوگیا۔

اس بارے میں پی ٹی ایم کے ایک سینئر رکن نے بتایا کہ اعلیٰ سطح کے تعلقات کی ضرورت ہے اور ‘چیک پوسٹ پر ایک گلاس مشروب کی دعوت ہماری تمام شکایتوں کا جواب نہیں’۔

یہ بھی پڑھیں: منظور پشتین کے مطالبات جائز ہیں، عمران خان

پی ٹی ایم کے نظریے میں تبدیلی کے بعد آئستہ آئستہ دونوں جانب سے رابطوں میں خلیج آگئی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسوں میں تیزی آتی گئی۔

دونوں فریقین کے موجودہ معاملات مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں، دونوں جانب کے لوگوں سے کیے گئے انٹرویو اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کچھ سگنلز کم ہوگئے اور پی ٹی ایم تک پہنچنے کی ناکام کوششیں کی گئی۔

فوج کا خیال ہے کہ پی ٹی ایم معاملات کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپنے مطالبات بڑھا رہی تھی اور ان کے نقطہ نظر میں غیر یقینی اور غیر متوقع ہونے کے عناصر شامل تھے جبکہ پی ٹی ایم اپنے اصل مطالبات سے پیچھے ہٹ گئی تھی۔

دوسری جانب پی ٹی ایم فوج سے بدظن ہوگئی تھی اور پی ٹی ایم کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ حالات پیچیدہ ہوگئے ہیں۔

اس کے علاوہ پی ٹی ایم کے رکن کی جانب سے اس جرگے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا جو معاملات کے حل کے لیے پی ٹی ایم سے ملا تھا۔

پشتون تحفظ موومنٹ کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے گورنر اقبال ظفر جھگڑا کی جانب سے بنائے گئے جرگے کو فوج کی پشت پناہی حاصل ہے، جرگے کی جانب سے مذاکرات کے پہلے دور میں منظور پشتین سے ملاقات کی گئی اور ان کی شکایات سنی گئیں۔

اس ملاقات کے بعد منظور پشتین کی جانب سے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کے لیے کچھ وقت مانگا گیا تھا، تاہم وہ پھر جرگے کے سامنے واپس نہیں آئے تھے۔

اس بارے میں پی ٹی ایم کے رکن ارشد آفریدی نے کہا کہ وہ اس معاملے میں مزید کچھ سننے کو تیار نہیں اور یہ بھی ابھی تک واضح نہیں ہے کہ پی ٹی ایم کی جانب سے جرگے کو اس طرح کا جواب ان کے اراکین پر تحفظات ہونے کے باعث دیا گیا یا ان کے فوج سے تعلق کی وجہ سے دیا گیا۔

پی ٹی ایم کے رکن نے ڈان کو بتایا کہ ‘ہم جانتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کو ماضی میں کیسے لایا گیا تھا’۔

تاہم دونوں فریقین سے بات چیت کے بعد جو اہم نکات سامنے آئے وہ 2 تھے، جن میں ایک بارودی سرنگوں کا ہٹانا اور لاپتہ افراد کی بازیابی تھا۔

پاک فوج کی جانب سے دوٹوک انداز میں اس بات کی تردید کی گئی کہ اس علاقے میں کوئی بارودی سرنگ نہیں بچھائی گئی، اس بارے میں ایک سینئر فوجی افسر کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے خود ساختہ دھماکا خیز آلات (آئی ای ڈیز) سے سب سے زیادہ فوج متاثر ہوئی اور میجر جنرل ثناء اللہ سمیت ہماری آدھے سے زیادہ جوان ان آئی ڈی ایز کی وجہ سے شہید ہوئے۔

اس کے برعکس بے گھر ہونے والے افراد کا کہنا تھا کہ ان بارودی سرنگوں اور بقایا رہ جانے والی آئی ای ڈیز کے سبب 20 افراد ہلاک اور 78 معذور ہوچکے ہیں، تاہم پاک فوج کے افسر کا کہنا تھا کہ علاقے کی صفائی کا عمل جاری ہے اور اس میں وقت لگے گا۔

مزید پڑھیں: پشاور:پی ٹی ایم کا رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر پر احتجاج

لاپتہ افراد کے معاملے پر فوجی افسر کا کہنا تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ اس معاملے کو شدت پسندانہ طریقے سے بڑھا رہی ہے جبکہ ہم نے ان سے لاپتہ افراد کی فہرست دینے کا کہا تھا لیکن اب تک پشتون تحفظ موومنٹ نے ہمیں فہرست فراہم نہیں کی۔

تاہم پیچیدہ صورتحال کے باعث یہ معاملے کا حل ہونا مشکل ہے کیونکہ فوج کی جانب سے داخلی مراکز اور بنو جیل میں ان کیسز کا جائزہ لینے کے لیے ایک نظام کی پیش کش کی گئی تھی لیکن پاک فوج اور پشتون تحفظ موومنٹ کے درمیان خلیج وسیع ہوگئی ہے اور یہ واضح نہیں کہ انہیں کیسے حل کیا جائے گا۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات کی ضمانت دی جائے کہ ان سے کیے گئے وعدے پورے ہوں گے جبکہ فوجی افسر کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم اپنے مقاصد سے پیچھے ہٹ گئی۔


یہ خبر 04 مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں