اسلام آباد: 1 ارب 77 کروڑ ڈالر میں کے-الیکٹرک کو خریدنے والی چینی کمپنی شنگھائی الیکٹرک کے نمائندوں کے دارالحکومت سے جاتے ہی حکومت نے مستقبل میں ادارے کی مالی لین دین کرنے کے لیے پہلے سے موجود معاہدے کے قانونی ڈھانچے میں ردوبدل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں ہونے والے کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں نجکاری کمیشن کی جانب سے پیش کردہ نظرثانی شدہ فریم ورک پر غور کیا گیا۔

اجلاس میں کہا کیا کہ اس طرح کے قانونی اور مالیاتی پلیٹ فارمز کو بین الاقوامی معیار کی روشنی میں کام کرنا چاہیے اور پاکستانی تجارتی منڈی کی اہمیت اور ملک میں ہونے والی ترقی کو ثابت کرنے کے لیے بیان بازی کے بجائے عملی اقدامات کیے جائیں۔

یہ بھی پڑھیں: شنگھائی کمپنی کی ایک مرتبہ پھر کے الیکڑک کی خریداری میں دلچسپی

اس سلسلے میں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر نجکاری دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کی پہلی نجکاری کے بعد کیا جانے والا خریدو فروخت کا معاہدہ، قانونی انتظامات کے تحت صرف ایک انتظامیہ کو کمپنی کے اثاثوں کی منتقلی کی اجازت دیتا تھا، جس پر 10 سال قبل عمل ہوچکا ہے جب اسے ’ابراج کیپیٹل‘ نے خریدا تھا۔

اسی وجہ سے پچھلے ایس پی اے کو مکمل طور تبدیل کیا گیا ہے جس سے اثاثوں کی منتقلی کی مختلف راہیں ہموار ہوں گی، جس کے تحت نہ صرف کے الیکٹرک کی ابراج گروپ سے چین کی شنگھائی الیکٹرک کو منتقلی کی جائے گی بلکہ کوئی بھی مشکل پیش آنے کی صورت میں مستقبل کی تمام لین دین بھی اسی تناظر میں کی جائیں گی۔

تاہم وفاقی وزیرِ نجکاری نے تجویز کردہ فریم ورک کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے اسٹیک ہولڈرز، اس کے معاہدے کے قانونی، عدالتی اور مالی پہلوؤں پر غور کررہے ہیں جس کے بعد وہ اس بارے میں اپنی سفارشات پیش کریں گے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا ’کے الیکٹرک‘ کی فروخت کیلئے سیکیورٹی سرٹیفکیٹ کے اجرا کا فیصلہ

اس ضمن میں ان کا مزید کہنا تھا کہ کے الیکٹرک کی ابراج گروپ سے شنگھائی الیکٹرک کو منتقلی کے پیچھے بہت سے مفادات وابستہ ہیں، ابراج گروپ ایک کاروباری گروپ تھا جس میں اس قسم کی سہولت کو سنبھالنے کی تکنیکی مہارت کی کمی تھی جبکہ انہوں نے پیداوار اور تقسیم کے نیٹ ورک کو اس طرح بہتر نہیں بنایا جس طرح بنانا چاہیے تھا۔

دوسری جانب شنگھائی الیکٹرک ایک بین الاقوامی توانائی کمپنی ہے جو توانائی کی عالمی پیداوار میں 10 فیصد حصہ شامل کرتی ہے، جنہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے سال 2025 تک 9 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں:کے الیکٹرک اور ایس ایس جی سی کے درمیان تنازع کے حل کے لیے وفاق متحرک

دانیال عزیز کا مزید کہنا تھا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ شنگھائی الیکٹرک نے 2016 میں کے الیکٹرک کو ٹیک اوور کرنے کے لیے درخواست دی تھی لیکن اسے اب تک سیکیورٹی کلیئرنس سرٹیفکیٹ (این ایس سی) نہیں مل سکا حالانکہ یہی کمپنی پاکستان چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر میں شریک رہی ہے۔

واضح رہے مذکورہ سیکیورٹی کلیئرنس وفاقی کابینہ کی جانب سے دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں کئی طرح کی دستاویزی کارروائیوں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کے الیکٹرک کے مسئلے کو سی سی ای کے ایجنڈے میں مسلسل شامل کر کے اس پر بات چیت کی جاتی رہی ہے لیکن تمام تر بات چیت کا محور بہترین ٹیرف فراہم کر کے کے الیکٹرک کو فائدہ پہچانا رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN May 08, 2018 09:48pm
بڑا افسوس ہوتا ہے جب حکومت عوام کے مفاد کے بجائے نجی کمپنیوں کے مفاد کو اولیت دیتی ہو یہاں تک کہ پہلے سے فائدے کے حامل ٹیرف میں مزید اضافہ صرف اور صرف کے الیکٹرک کے لیے کیا جارہا ہے۔ پہلے سے موجود معاہدے کو کے قانونی ڈھانچے میں ردوبدل صرف کے الیکٹرک کے لیے کیا جارہا ہوں، اس معاہدے میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ نہ کرنا بھی شامل تھا مگر اس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرکے عوام کے لیے نرخ دگنے سے بھی زیادہ کردیے گئے ہیں۔ اسی طرح اس معاہدے میں کے ای ایس سی کے ملازمین بھی بہت سے اسٹیک ہولڈرز میں سے ایک ہیں مگر ان کی رائے کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی، بلکہ ان کو بوجھ قرار دے کر ادارے سے نکال باہر کیا گیا، جس کا کیس اب تک عدالت میں زیر التو ہے، ابراج کے آنے کے بعد ریفرنڈم تک نہ ہوسکا، صرف اور صرف منافع پر توجہ دینے سے کراچی کے شہریوں کا نرم الفاظ میں بیڑہ غرق کردیا گیا۔ کسی بھی نئے معاہدے کے لیے ملکی قوانین، عوام، نیپرا، کے الیکٹرک ملازمین، لیبر یونین کو مدنظر رکھے۔ اسی طرح چونکہ کے الیکٹرک پہلے ہی اچھے خاصے منافع میں ہے لہذا شہریوں کے لیے ملٹی ائیر ٹیرف کے نام پر بجلی مزید مہنگی نہ کی جائے۔