سویڈن کی پولیس نے ملک میں عام انتخابات سے 5 ماہ قبل ہی ایک مسجد کو ہفتہ وار اذان کی اجازت دے دی جہاں پر حالیہ برسوں میں پناہ گزینوں کی آمد بھی جاری رہی ہے۔

پولیس کی جانب سے ایک سال کے لیے دی گئی اجازت پر چند سیاست دانوں کو تشویش ہے کہ اس سے ملک میں ثقافتی حوالے سے کشیدگی ہوگی جبکہ دیگر کا خیال ہے کہ 9 ستمبر کو ہونے والے انتخابات کے حوالے سے یہ ایک متوازن قدم ہے۔

خبرایجنسی سے بات کرتے ہوئے سٹی کونسل آنا ٹینجے کا کہنا تھا کہ ‘اذان سے مشرقی شہر ویکسجو میں افہام و تفہیم کو تقویت نہیں ملے گی بلکہ اس سے شہر میں مزید تقسیم کا خدشہ ہے’۔

سویڈن کی جماعت سوشل ڈیموکریٹس کے وزیراعظم اسٹیفن لوفون کا کہنا تھا کہ تقسیم کو ختم کرنے کے لیے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بے روزگاری سے نمٹنے اور اسکولوں کے اعلیٰ معیار کو یقینی بنانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘سویڈن کا پورا معاشرہ مختلف مذاہب پر مشتمل ہے’۔

سویڈن کے نجی ٹی وی چینل میں نشر ہونے والی رپورٹ میں سماجی تحقیقاتی کمپنی ایس آئی ایف او کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے نتائج کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ 60 فیصد شہری سویڈن میں اذان پر پابندی کی حمایت کرتے ہیں۔

دوسری جانب پولیس کا کہنا تھا کہ ویکسجو میں قائم مسجد میں ہر جمعے کو 3 منٹ 45 سیکنڈز تک اذان دینے کی اجازت ہوگی۔

کرسچن ڈیموکریٹس کے رہنما ایبا بوش تھور نے کہا کہ ‘شہریوں کو ان کے گھروں میں اس کی آواز نہیں آنی چاہیے’۔

پولیس کا کہنا تھا کہ مسجد کے اسپیکر کی آواز کو ایک خاص حد سے زیادہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی تاکہ قریبی گھروں میں موجود افراد کو اذیت نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ مذہب کی بنیاد پر نہیں کیا گیا ہے بلکہ قومی قانون کے تحت کیا گیا ہے۔

ویکسجو میں مسلمان برادری کے ترجمان آویدی اسلامی کا کہنا تھا کہ ہزاروں افراد سالانہ مسجد میں آتے ہیں اور اذان کی خواہش کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارا ایک ایسا معاشرہ جہاں ہم مختلف ہیں اور ہمیں ان اختلافات سے خود کو مضبوط تر بنالینا چاہیے’۔

سویڈن میں موجود مسلمانوں کی مجموعی تعداد کے حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے تاہم سویڈش ایجنسی فار سپورٹ ٹو فیتھ کمیونیٹیز کے ایک اندازے کے مطابق ملک میں 4 لاکھ کے قریب مسلمان ہیں۔

خیال رہے کہ ویکسجو کی مسجد ملک کی تیسری مسجد ہے جہاں اذان کی اجازت دی گئی ہے اس سے قبل اسٹاک ہالم کے نواح میں اور تیسری مسجد ملک کے جنوب مشرقی علاقے میں ہے جہاں اذان کی اجازت دی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں