عالمی بینک کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی تنازع کا پُرامن حل نکالنے کے لیے کوشاں ہے، جس کے لیے اسلام آباد کے وفد کے ساتھ بات چیت کا آغاز کردیا گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے کشن گنگا ڈیم کے افتتاح کے ایک روز بعد 20 مئی کو اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی سربراہی میں پاکستان کا وفد واشنگٹن پہنچا۔

عالمی بینک کی ترجمان ایلینا کرابان نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عالمی بینک کے حکام نے پاکستانی حکام کے ساتھ 21 اور 22 مئی کو سندھ طاس معاہدے کی روشنی میں مذکورہ ڈیم کے مسائلے کے حوالے سے ملاقات کی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ملاقات کے دوران پاکستان حکام کی جانب سے بھارتی ڈیم پر تحفظات زیرِ بحث آئے جبکہ سندھ طاس معاہدے کی روشنی میں اس کا پُر امن حل نکالنے پر زور دیا گیا۔

مزید پڑھیں: پاکستانی اعتراض نظر انداز، بھارت نے کشن گنگا ڈیم کا افتتاح کردیا

عالمی بین کی ترجمان نے سندھ طاس معاہدے کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ ایک اہم ترین بین الاقوامی معاہدہ ہے جو پاکستان اور بھارت کو اپنے عوام کی ضروریات پوری کرنے کے لیے حال اور مستقبل میں پانی کے موثر انتظام کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ایک ضروری تعاون پر مبنی فریم روک فراہم کرتا ہے۔

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ یہ ملاقاتیں بھی پاکستان کی درخواست پر کی گئی ہیں، جبکہ سندھ طاس معاہدے کی حفاظت کے بارے میں عالمی بینک کا کہنا ہے کہ تقریباً نصف صدی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے باوجود سندھ طاس معاہدہ قائم رہا، جبکہ اس نے آب پاشی اور ہائیڈرو پاور ڈیولپمنٹ کے لیے فریم ورک بھی فراہم کیا۔

واضح رہے کہ پاکستان کے عالمی بینک کے ساتھ مذاکرات 4 اہم نکات کے گرد گھومتے ہیں، جن میں کشن گنگا دریا پر قائم ہونے والے ڈیم کی اونچائی، اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی حد، پاکستان کا تنازع کو حل کرنے کے لیے ثالثی عدالت کے قیام کا مطالبہ اور اس کے جواب میں بھارت کی جانب سے بین الاقوامی ماہرین سے مدد لینے کا مطالبہ شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا کشن گنگا ڈیم کی تعمیر کیخلاف ورلڈ بینک سے رجوع

یاد رہے کہ 5 اپریل کو بھارت کی جانب سے متنازع کشن گنگا ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے کی تصدیق کے بعد پاکستان نے ورلڈ بینک سے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے 2 بڑے بھارتی منصوبوں پر اسلام آباد کے تحفظات کو سندھ طاس معاہدہ 1960 کی روشنی میں دور کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ انڈس ریور سسٹم میں 6 بڑے دریا ہیں جن میں سے 3 مغربی دریا جہلم، چناب اور سندھ ہیں، جبکہ مشرقی حصے میں ستلج، راوی اور بیز ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا ہے جبکہ مشرقی دریاؤں پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔

اسلام آباد اور نئی دہلی نے گزشتہ 50 سال سے زائد عرصے میں سندھ طاس میں معاہدے میں ہونے والے مسائل پر ہمیشہ عالمی بینک کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

مزید پڑھیں: پاک-بھارت آبی تنازع: عالمی بینک سے مذاکرات کا آغاز

واضح رہے کہ دسمبر 2016 میں عالمی ثالثی عدالت نے بھارت کو کشن گنگا ڈیم پرمزید کام کرنے سے عارضی طور پر روک دیا تھا اورثالثی عدالت کا وفد دومرتبہ نیلم جہلم منصوبے، وادی نیلم اور کشن گنگا منصوبے کا دورے کیے تھے۔

پاکستان نے چناب پر 850 میگا واٹ کے ریٹل، 1000 میگاواٹ کے پکل دل، 120 میگاواٹ کے میار، اور 48 میگا واٹ کے لوور کلنائی بجلی گھروں کی تعمیر پر اعتراضات اٹھائے تھے۔

پاکستانی موقف کے مطابق کشن گنگا کی تعمیر کے نتیجے میں دریائے نیلم میں پانی کا بہاؤ بری طرح متاثر ہوگا۔ دریائے نیلم پر واقع 969 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے پاکستانی منصوبے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سے بجلی کی پیداوار بھی کم ہوجائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا ورلڈ بینک سے پاک، بھارت آبی تنازع حل کرنے کا مطالبہ

پاکستان نے دو عالمی فورمز ورلڈ بینک اور عالمی ثالثی عدالت میں بھارتی آبی جارحیت کے خلاف اعتراضات اٹھائے لیکن کہیں سے بھی تسلی بخش جواب نہیں مل سکا، جس کی ایک بڑی وجہ داخلی کمزوریاں اور فیصلہ لینے میں تاخیر بتائی جاتی ہے۔

اس سے قبل پاکستان نے بگلیہار ڈیم ہائیڈرو الیکڑک پراجیکٹ کے معاملے پر غیر جانبدار ماہرین کے سامنے رپورٹ پیش کی تھی اور اب کشن گنگا اور ولر بیراج پر ورلڈ بینک سے رجوع کیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں