لکھاری ایک سماجی کارکن، محقق، اور ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم گروہ 'بولو بھی' کے ڈائریکٹر ہیں.
لکھاری ایک سماجی کارکن، محقق، اور ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم گروہ 'بولو بھی' کے ڈائریکٹر ہیں.

ہماری زندگیوں پر سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر کی وجہ سے اب ہمیں اس پر ہر طرح کے مسائل پر سماجی رویے دیکھنے کو ملتے ہیں، مگر صرف ان لوگوں کے جنہیں انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔

مگر پھر بھی، کئی بہادر خواتین کی جانب سے ہولی ووڈ کی بااثر شخصیت ہاروی وینسٹائن کے کردار کے بارے میں انکشافات کے بعد دنیا بھر میں لاکھوں خواتین #MeToo اور #TimesUp کے ہیش ٹیگز کا استعمال کرکے عوامی، نجی اور کام کی جگہوں پر جنسی ہراسمنٹ اور جنسی استحصال کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔

اس پلیٹ فارم نے خواتین کو اپنی کہانیاں شیئر کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ فراہم کی ہے جس سے دوسرے بھی متاثر ہو کر قدم اٹھا سکتے ہیں۔ کئی پاکستانی خواتین نے بھی آگے بڑھ کر خاموشی توڑی ہے۔ 'خاموشی توڑنے والے' ان لوگوں کے ساتھ جہاں بے مثال یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا تو وہیں انہیں حیران کن منفی رویوں اور تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

اس کی کئی توجیہات ہو سکتی ہیں۔

سب سے پہلی وجہ تو صنفی کرداروں کی ایک قدامت پسند تشریح ہے جس میں خواتین سے گھروں پر رہنے کی توقع کی جاتی ہے جبکہ باہر نکلنے والی خواتین کو بدچلن سمجھا جاتا ہے۔ کراچی میں ہونے والے عورت مارچ پر غم و غصے کی لہر سے اور مرد سیاستدانوں کی جانب سے خواتین سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کے بارے میں استعمال کی جانے والی زبان سے یہ واضح ہے۔ جہاں مذہب کو اکثر خواتین پر پابندیاں لگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو وہیں اسلامی تاریخ میں ان کئی مضبوط اور آزاد خواتین کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے جو کاروبار اور قیادت میں کامیاب تھیں۔

پڑھیے: عورت، ناانصافی اور قوانین

خاتون کی رضامندی کے بغیر انہیں چھونے کا کوئی جواب نہیں ہے مگر پھر بھی خواتین کو ہی اس کے لیے ملزم ٹھہرایا جاتا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ یہ خواتین ایسے کپڑے پہن کر خود اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو دعوت دیتی ہیں۔ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ کئی واقعات میں مکمل طور پر خود کو ڈھانپ کر رکھنے والی لڑکیوں کو بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔ ایک اور عام حملہ جو کیا جاتا ہے وہ یہ کہ جو خواتین آواز اٹھاتی ہیں، وہ صرف توجہ یا مشہوری حاصل کرنے کے لیے ایسا کرتی ہیں، خاص طور پر ہائی پروفائل کیسز میں۔ موردِ الزام شخص کو بچانے کے علاوہ یہ دلیل الزام عائد کرنے والی شخصیت کو ملنے والی دھمکیوں اور تنقید کو بھی نظرانداز کر دیتی ہے۔

یہ بہت پریشان کن بات ہے کہ جنسی تشدد سے بچنے کی ذمہ داری اس کے شکار لوگوں پر، ان کے کپڑوں پر اور ان کی نقل و حرکت پر ڈالی جاتی ہے، بجائے اس کے کہ خواتین کو ہراساں کرنے والوں کے خلاف اقدامات اٹھائے جائیں۔

قانون کیا کہتا ہے؟

کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ کا قانون 2010ء جنسی ہراسمنٹ کی یہ تعریف وضع کرتا ہے: "کوئی ناپسندیدہ جنسی پیش قدمی، جنسی خواہشات کی تکمیل کی استدعا، جنسی نوعیت کے زبانی یا تحریری روابط یا جسمانی طرزِ عمل، یا جنسی تذلیل جو کام کی انجام دہی میں رکاوٹ کا سبب بنے، یا خوف و ہراس یا جارحانہ یا مخالفانہ ماحول کا باعث بنے، یا مذکورہ مدعا پورا نہ کرنے پر سزا دینے کی کوشش کرے، یا خواہش پوری کرنے کو ملازمت کی شرط قرار دے۔"

اس قانون کے ذریعے ہر ادارے کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کام کی جگہ پر ضابطہ اخلاق کو نمایاں طور پر آویزاں کرے، اور کم از کم ایک خاتون (اور اگر ملازمین میں کوئی خاتون نہیں تو ادارے سے باہر کی کوئی خاتون) پر مشتمل ایک اندرونی انکوائری کمیٹی بنائی جائے۔ شکایت کنندگان ادارے کی کمیٹی کو یا پھر اس قانون کے تحت قائم کیے گئے صوبائی یا وفاقی محتسبین کے دفاتر میں شکایت درج کروا سکتے ہیں۔

اس دوران تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 509 کے تحت عوامی مقامات پر جنسی ہراسمنٹ کو ایک جرم قرار دیا گیا ہے۔

الیکٹرانک جرائم کے انسداد کے قانون 2016ء میں بھی انٹرنیٹ پر ہراساں کیے جانے کے خلاف شقیں موجود ہیں۔ شق 21 میں "کسی شخص یا بچے کی عزتِ نفس کے خلاف جرائم" کو قابلِ سزا قرار دیا گیا ہے۔ ان جرائم میں کسی کی تصاویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ان کی تقسیم شامل ہے۔

پڑھیے: تبدیلی کیونکر ممکن ہو؟

شق 24 سائبر اسٹاکنگ، یعنی انٹرنیٹ پر کسی شخص کا پیچھا کرنا یا اس کی نظرداری کرنا بھی قابلِ سزا جرم ہے۔ اس میں ہراساں کرنا، واضح طور پر عدم دلچسپی کے باوجود کسی سے رابطہ کرنے کی کوشش کرنا، کسی کی آن لائن سرگرمیوں کو مانیٹر کرنا، ان کی جاسوسی کرنا یا پھر نقصان پہنچانے کی نیت کر کے کسی کی تصاویر لینا۔

ہراسمنٹ کے معاملات کیوں رپورٹ نہیں ہوتے؟

ہراسمنٹ کا سامنا کرنے والی خواتین کی تعداد حیران کن ہے مگر اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیوں کہ کئی وجوہات کی بناء پر ایسے معاملات رپورٹ نہیں ہوتے۔

پہلی وجہ، جنسی ہراسمنٹ اس وقت ہوتی ہے جب مجرم اپنے عہدے یا طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے شکار کی ماتحت کے طور پر کمزور صورتحال کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ سماجی بدنامی اور ملازمت سے نکالے جانے کا خوف آواز اٹھانے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ان معاملات میں بھی جہاں ہراساں کیا جانا ثابت ہوجاتا ہے، وہاں بھی خواتین کو ایسے معاندانہ ماحول کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے وہ نمٹ نہیں پاتیں، اور بالآخر ان میں سے زیادہ تر استعفیٰ دے دیتی ہیں۔

دوسری وجہ، ہراساں کرنے والوں کو اس مردانہ معاشرے میں مرد ہونے کی امتیازی حیثیت حاصل ہوتی ہے جہاں مرد کی بات کو عورت کی بات سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ پاکستانی خواتین کی قانونِ شہادت کے خلاف جدوجہد سے واضح ہے جس کے تحت ایک مرد کی گواہی دو عورتوں کی گواہی کے برابر ہے۔

تیسری وجہ، ان معاملات میں قانونی مثالیں کم ہیں کیوں کہ قوانین نئے اور خامیاں رکھتے ہیں، جبکہ عدالتی نظام بھی پدرسرانہ ذہنیت رکھتا ہے اور عدلیہ خود بھی کئی بار صنفی تعصب پر مبنی بیانات دے چکی ہے۔ پاکستان ٹیلیویژن پر جنسی ہراسمنٹ کے ایک معاملے میں شکایت کنندہ کو اپنی نوکری چھوڑنی پڑی تھی بھلے ہی انہیں مبینہ طور پر ہراساں کرنے والے مینیجنگ ڈائریکٹر کو بعد میں برطرف کر دیا گیا تھا مگر اس کی وجہ ان کے خلاف شکایت نہیں تھی۔

صوبائی محتسب پنجاب نے بعد میں انہیں ملزم پایا، مگر پھر بھی شکایت کنندہ کو نوکری پر بحال نہیں کروایا جا سکا۔ مضبوط مثالیں قائم کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر پٹاری کے سابق سی ای او کے جیسے معاملات میں، تاکہ دوسرے افراد کو بھی آگے آنے اور خاموشی توڑنے کا اعتماد ملے۔

اس کے علاوہ ہراسمنٹ کا الزام ثابت کرنے کے لیے شکایت کنندہ کے کردار کی جانچ پڑتال ایک پریشان کن طریقہ ہے۔ اس قدامت پسند معاشرے میں مادی ثبوتوں پر بھی اتنا شدید انحصار کیا جاتا ہے جتنا کہ صنفی کرداروں پر۔ اس لیے گواہی، خاص طور پر تب جب وہ تعداد میں ایک سے زیادہ ہوں، کو خاص طور پر زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔

کراچی اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں الزامات کی حالیہ لہر دکھاتی ہے کہ نوجوان نسل سوشل میڈیا کا استعمال اپنی آواز بلند کرنے اور یکجہتی سے کام کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اس سے مزید جامع ضابطہ اخلاق اور قوانین کی ضرورت ہے تاکہ طلباء کو درپیش جنسی ہراسمنٹ کے خطرے سے مناسب طور پر نمٹا جا سکے۔

سوشل میڈیا پر #MeToo اور #TimesUp تحریکیں صنفی تعصب اور خواتین کے استحصال کے خلاف خواتین کی سالہاسال سے چل رہی تحریکوں میں ایک اور قدم ہے۔ حاکمیت کو خطرہ ہے اور اس کے خلاف ثقافتی دلیلیں ضرور آئیں گی، مگر یہ تحریکیں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کے لیے ضروری ہیں جہاں خواتین بھی نجی اور عوامی مقامات پر مردوں جتنا محفوظ محسوس کر سکیں، کیوں کہ ہراساں کیے جانے کا وقت واقعی گزر چکا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 25 مئی 2018 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں