سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے احتساب عدالت کو ایک مرتبہ پھر بتایا ہے کہ وہ ایون فیلڈ اثاثوں کی بینیفشل مالک نہیں ہیں۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں جج محمد بشیر نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، اس دوران سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر پیش ہوئے، جہاں مریم نواز نے عدالتی سوالات پر اپنے جوابات ریکارڈ کرانے کا سلسلہ جاری رکھا۔

خیال رہے کہ مریم نواز کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 342 کے تحت احتساب عدالت کے سوالات کے جواب دے رہی ہیں۔

عدالت میں مریم نواز نے کہا کہ ’میں کبھی بھی نیلسن اور نیسکول کمپنیز یا ایون فیلڈ پراپرٹیز کی بینیفشل مالک نہیں تھی نہ ہی میں نے ان کمپنیوں یا ایون فیلڈ پراپرٹیز سے کوئی مالی فائدہ حاصل کیا‘۔

مزید پڑھیں: ’ایون فیلڈ ریفرنس میں نام شامل کرنے کیلئے جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ کو غلط قرار دیا‘

سماعت کے دوران پروسیکیوشن کی جانب سے پیش کردہ ثبوتوں پر مریم نواز نے موسیک فونسیکا کے 22 جون 2012 کے خط اور مالی تحقیقاتی ایجنسیوں کی صداقت کو چیلنج کیا اور کہا کہ جے آئی ٹی نے وہ خط عدالت میں پیش نہیں کیا جو اس کے جواب میں لکھا گیا تھا۔

واضح رہے کہ موسیک فونسیکا کے خط میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ مریم نواز آف شور کمپنیوں کی بینیشفل مالک تھی۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ ان دستاویز کی تصدیق قانون کے تحت نہیں کی گئی اور نہ ہی ان دستاویز کے مواد کی تصدیق کے لیے میری جانب سے جرح کی گئی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان دستاویزات کو ثبوت کے طور پر نہیں پڑھا جاسکتا کیوںکہ یہ ان کے منصفانہ ٹرائل کے حق کو مسترد کرتا ہے۔

شریف خاندان اور قطری شاہی خاندان کے درمیان تصفیہ کے معاملے پر مریم نواز نے کہا کہ وہ 1980 میں 25 فیصد گلف اسٹیل کے شیئرز کی فروخت اور اس کے بعد سرمایہ کاری سے متعلق کسی ٹرانسیکشن میں ملوث نہیں رہیں۔

انہوں نے کہا کہ باہمی قانونی مدد (ایم ایل اے) کے تحت دیئے گئے جواب قابل اعتماد دستاویز نہیں اور نہ ہی یہ قابل قبول ثبوت ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل سماعت میں سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 128 سوالات میں سے 84 کے جوابات ریکارڈ کرائے تھے۔

گزشتہ سماعت میں انہوں نے کہا تھا کہ نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنیوں کے حوالے سے ٹرسٹ ڈیڈ اصل تھی تاہم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے انہیں جان بوجھ کر غلط ثابت کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کا اور ان کے خاوند کیپٹن (ر) محمد صفدر کا نام ایون فیلڈ ریفرنس میں شامل کیا جاسکے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 128 سوالات کے جوابات مکمل کیے تھے۔

تحریک انصاف نے 5 برسوں میں کچھ نہیں کیا، نواز شریف

دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف نے آئندہ عام انتخابات کے ضابطہ اخلاق میں موجود شرائط کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کی 5 سالہ کارکردگی کو پیش کرنے سے روکنا غیر منصفانہ ہے۔

احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کی جانب سے ضابطہ اخلاق پر رسمی طور پر تحفظات کا اظہار کرے گی، تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں سیاسی جماعتوں کو 5 سالہ کارکردگی پیش کرنے سے روکنا، مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو نشانہ بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے علاوہ کسی جماعت نے بھی عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا جبکہ ہماری وفاقی حکومت نے بجلی کا مسئلہ حل کیا، دہشت گردی ختم کی اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک ) شروع کیا، اس کے علاوہ کراچی سے پشاور، گوادر اور دیگر شہروں میں موٹرویز کا جال بچھایا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں کوئٹہ سے گوادر پہنچنے میں 2 دن لگتے تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے منصوبوں کے باعث اب کوئٹہ میں ناشتہ اور گوادر میں دوپہر کا کھانا کھایا جاسکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے 5 برسوں میں کچھ نہیں کیا اور عمران خان نے عوامی، سماجی شعبے میں کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا، یہاں تک کہ بجلی کے حوالے سے بھی 5 سال میں کے پی حکومت نے کوئی کام نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: ’خفیہ ایجنسی کے ارکان کی جے آئی ٹی میں شمولیت نامناسب تھی‘

نگراں وزیر اعظم کے معاملے پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہم نے نگراں وزیر اعظم کے لیے بہت مناسب افراد کے نام دیئے ہیں کیونکہ ہم ایسے لوگوں کے نام سامنے نہیں لانا چاہتے جو عوام کو قبول نہیں ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان کا معاملہ نہیں بلکہ ایسا نام ہونا چاہیے جو بڑے پیمانے پر قابل قبول ہو۔

نواز شریف نے کہا کہ خیبرپختونخوا کا نگراں وزیر اعلیٰ پی ٹی آئی کے سینیٹر کے بھائی کو نامزد کیا گیا یہ تو بلی سے دودھ کی رکھ والی کرانا اور اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنے اپنے کو، جیسا ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کیس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ مقدمہ اور 1999 میں طیارہ ہائیجیکنگ کا کیس ایک جیسا ہی ہے۔

ڈان اخبار کی ترسیل کے حوالے سے بی بی سی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال تشویش ناک ہے اور میڈیا پر دباؤ ڈالنا قبل ازوقت دھاندلی کے مترادف ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں