اسلام آباد: ایک آزاد تھنک ٹینک نے ایک سال سے زائد عرصے تک انتخابات سے قبل کے عمل کا مسلسل اور منظم طریقے سے جائزہ لینے کے بعد اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ پاکستان میں مجموعی طور پر انتخابات سے قبل کا عمل اب تک غیر شفاف ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی قانون ساز ترقی اور شفافیت کے ادارے (پلڈاٹ) کی جانب سے جاری کردہ ’انتخابات سے قبل جائزہ رپورٹ‘ میں موصول شدہ اعداد وشمار میں 2 پیمانے انتہائی غیر شفاف پائے گئے، ان پیمانوں میں ایک سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے مقابلے کے لیے فوج کی غیر جانب داری کا تاثر سب سے زیادہ غیر شفاف پایا گیا اور اس کا اسکور 33.4 فیصد رہا، اسی طرح دوسرے پیمانے میں ریاستی اداروں اور ذاتی مفادات کے اثر و رسوخ سے نجی میڈیا کی آزادی کا اسکور 37.8 فیصد رہا۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن نے حتمی انتخابی فہرستیں شائع کر دیں

اس حوالے سے جب پلڈاٹ کے حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس اسکور کا مطلب یہ ہے کہ ان کے 60 فیصد سے زائد تجزیہ کاروں اور ادارے کے ارکان کا یہ ماننا ہے کہ انتخابی عمل کے دوران فوج ‘غیر جانبدارانہ‘ کردار ادا نہیں کرتی اور نجی میڈیا ’ریاستی اداروں اور ذاتی مفادات‘ کے اثر و رسوخ کے تحت کام کرتا ہے۔

خیال رہے کہ یہ رپورٹ اپریل 2017 سے مارچ 2018 کے درمیان ہونے والے متعدد واقعات کے جائزے پر انحصار کرتی ہے۔

پلڈاٹ کی جانب سے جاری کردہ جائزہ رپورٹ میں انتخابی عمل سے قبل شفافیت کا اسکور کارڈ 11 نکاتی فریم ورک پر محیط ہے، جس میں اسے 100 میں سے کل 51.5 فیصد اسکور موصول ہوئے۔

رپورٹ میں غیر منصفانہ پیمانے میں سرکاری ذرائع ابلاغ کی غیر جانبداری کا تصور 41.5 فیصد، قومی احتساب بیور (نیب) کی سربراہی میں احتسابی عمل میں غیر جانبداری کا تصور 43.1 فیصد، اسی طرح عدلیہ میں بھی غیر جانبداری کا پیمانہ کم ہوا اور اسے 45.8 فیصد اسکور دیا گیا۔

جائزہ رپورٹ میں جس پیمانے نے آزاد اور منصفانہ انتخابات کے لیے مطلوبہ سطح فراہم کرنے کے لحاظ سے سب سے زیادہ اسکور حاصل کیے اس میں انتخابی انتظام کے ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) ہے۔

یہ بھی انتخابات 2018: کیا نوجوان سیاسی منظرنامے کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں؟

اس حوالے سے انتخابی فہرستوں کی ساکھ کے تصور میں اسے سب سے زیادہ 67.3 فیصد جبکہ آزاد، غیر جانبدار اور قابل تاثیر ہونے میں الیکشن کمیشن کو دوسرے نمبر پر 65.3 فیصد اسکور دیا گیا۔

رپورٹ میں تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ جس کی اسکورنگ رہی وہ انتخابی عمل کے لحاظ سے حلقہ بندیوں کا عمل تھا اور اسے 11 نکات میں سے تیسرے درجے پر سب سے زیادہ 64 فیصد اسکور موصول ہوئے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان 11 نکاتی فریم ورک میں سے صرف 3 پیمانے ایسے رہے جو منصفانہ عمل کے اسکور میں شامل ہوئے ہیں، تاہم کوئی بھی پیمانہ (81 سے 100) تک کے درمیان اچھا اسکور حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں