لندن: برطانوی اراکین پارلیمنٹ بین الاقوامی خیراتی اداروں کی جانب سے بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک ایسی چشم کشا رپورٹ کی تحقیقات کررہے ہیں جسے 17 برس تک خفیہ رکھا گیا۔

اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 15 عالمی امدادی تنظیمیں ’خوراک کے بدلے سیکس‘ کے اسکینڈل میں ملوث پائی گئیں۔

برطانوی اخبار دی ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 2001 میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی) اور سیو دا چلڈرن نامی تنظیم کے عہدیداران نے مغربی افریقہ میں بچوں کے بیانات لینے کے بعد ان خیراتی اداروں کی فہرست مرتب کی تھی جن کے رضاکار خوراک فراہم کرنے کے عوض ان سے جنسی تعلقات کا مطالبہ کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ملازمین پر جنسی استحصال کا الزام: سماجی تنظیم اوکسفیم کی نائب سربراہ مستعفی

اخبار کے مطابق اس حوالے سے 2002 میں اقوام متحدہ نے تحقیقات کا خلاصہ جاری کیا تھا لیکن تنظیموں کے ناموں پر مشتمل مکمل رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں لائی گئی، تاہم اب اسے برطانوی ممبران پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے بین الاقوامی ترقی کے سپرد کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال ہیٹی میں ہونے والے ایک جنسی اسکینڈل کی تحقیقات میں برطانوی خیراتی ادارے اوکسفیم کے عملے کے ملوث ہونے کے انکشاف کے بعد برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے امدادی تنظیموں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا۔

مذکورہ رپورٹ میں 40 سے زائد امدادی تنظیموں کے درجنوں رضاکاروں کے بارے میں بتایا گیا، جو پناہ گزین بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث پائے گئے، ان 40 تنظیموں میں 15 بین الاقوامی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: شام: امدادی سامان کے بدلے خواتین کے جنسی استحصال کا انکشاف

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں جن تنظیموں کے اراکین مجرمانہ فعل میں ملوث پائے گئے ان میں انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) اور نارویجیئن ریفیوجی کونسل (این آر سی) بھی شامل ہیں۔

اس سلسلے میں آئی آر سی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ان مقامی رضاکاروں کو فارغ کردیا گیا، جو یقینی طور پر اس اسکینڈل میں ملوث تھے، اس کے ساتھ جنسی استحصال، جنسی طور پر ہراساں کرنے اور بدسلوکی روکنے کے لیے اصلاحات آغاز کردیا۔

دوسری جانب این آر سی نے مذکورہ رپورٹ کو سنگین قرار دے کر خود بھی تحقیقات شروع کردی جس کے نتیجے میں سیرا لیون میں موجود اپنے عملے کے ایک مقامی کارکن کو نکال دیا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب: بچوں کے جنسی استحصال میں خطرناک اضافہ

خیال رہے تحقیقاتی ماہرین کے مطابق جینیوا، سیرالیون اور لیبیا میں سب سے زیادہ پناہ گزین بچوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے، جنہیں خوراک، تیل، تعلیم تک رسائی اور پلاسٹک کی شیٹوں کے عوض جنسی تعلقات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ الزامات تصدیق شدہ نہیں اور اس ضمن میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے لیکن دستاویزات میں الزامات کی تعداد، اس معاملے کی سنگین نوعیت کی جانب اشارہ کررہی ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزین ( یو این ایچ سی آر) رووڈ لبرز، جو سال 2001 سے 2005 تک اس عہدے پر تعینات رہے، نے اس وقت اپنے عملے کی جانب سے بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہونے کے الزام کو ’گپ‘ قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں 2016 میں یومیہ 11 بچوں کا جنسی استحصال

تاہم اقوام متحدہ کے یو این ایچ سی آر کی جانب سے رپورٹ میں ذکر کی گئیں تمام تنظیموں کو نہ صرف ان الزامات سے آگاہ کیا گیا بلکہ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کی جانب سے انہیں تفتیش کار بھی بھیجا گیا۔

اس سلسلے میں ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں ذکر کیا کہ اقوام متحدہ کو خطے میں بدسلوکی کی 43 مختلف شکایات موصول ہوئیں جس کے بعد انہوں نے ’اسپیسفک پریوینشن اینڈ ریمیڈیئل ایکشن‘ نامی پروگرام کا آغاز کیا تھا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یو این ایچ سی آر کی فراہم کردہ خفیہ فہرست میں جن 67 افراد کے نام دیئے گئے ان میں سے 10 سے بھی کم افراد کو برطرف کیا گیا اور کسی ایک پر بھی مقدمہ قائم نہیں کیا گیا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 30 مئی 2018 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں