اکثر و بیشتر یہی مانا جاتا ہے کہ پاکستان میں پارٹی منشور کا کردار کچھ خاص نہیں ہوتا اسی لیے سیاسی جماعتیں انہیں مرتب کرنے میں زیادہ محنت نہیں کرتیں۔ بلکہ ان کا زیادہ تر زور پرکشش نعرے تخلیق کرنے، اپنے مخالفین کے زبانی حملوں کا تابڑ توڑ جواب دینے اور نیچا دکھانے کے لیے بیانات تیار کرنے پر ہوتا ہے۔

مگر ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔ حال ہی میں جب میں نے 1970ء کے تاریخی انتخابات سے چند ماہ پہلے اردو اور انگریزی اخباروں میں شائع ہونے والی خبروں پر جب نظر دوڑائی تو مجھے ایسے کئی مضامین پڑھنے کو ملے جن میں انتخابی دوڑ میں شامل تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے منشوروں کا قریب سے تجزیہ کیا گیا تھا۔

ایک بند ہوچکا روزنامہ اور ہفتہ وار انگریزی اخبار بھی میری نظر سے گزرا جن میں شائع تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کراچی کی ایک سڑک کے کونے پر کچھ لوگ جمع ہیں اور وہ کسی سیاسی جماعت کا منشور پڑھ رہے ہیں اور اس پر تبصرہ کر رہے ہیں۔

اگر آپ 1970ء کے انتخابات پر مفصل انداز میں کیے گئے تجزیے، یعنی کریگ بیکسٹر کی کتاب پاکستان ووٹس 1970 (1971) اور فلپ ای جونز کی کتاب دی پاکستان پیپلز پارٹی: رائز ٹو پاور (2003)، پڑھیں تو آپ پائیں گے کہ 1970ء کے انتخابات کے دوران پارٹی منشور کافی اہمیت اور غیرمعمولی حیثیت کے حامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 1970ء کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل منظر عام پر آنے سیاسی جماعتوں کے منشور پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ غور فکر کے بعد لکھے گئے تھے۔

پڑھیے: انتخابات 2018ء: شاہ رخ کی کزن کا پشاور سے انتخاب لڑنے کا امکان؟

منشور کافی پیچیدہ دستاویز ہوتے ہیں، جنہیں اکثر دانشور، اقتصادی ماہرین اور تجربہ کار نظریہ دان مرتب کرتے ہیں، ان کا کام ملک کے معاشی، سیاسی اور سماجی حالات کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کرنا اور پھر یہ بتانا ہوتا کہ ان حالات سے پیدا ہونے والے مسائل کو ان کی سیاسی جماعت کس طرح حل کرے گی۔

بدقسمتی سے پاکستان میں 1980ء کی دہائی سے لے کر اب تک کے پارٹی منشوروں میں دانشوارانہ غور و فکر دیکھنے کو نہیں ملتی۔ منشور تو محض اب رسم پوری کرنے کے لیے چھاپے جاتے ہیں۔ سیاسی تبصرہ نگاروں نے بھی ان کا جائزہ لینا تقریباً چھوڑ ہی دیا ہے کہ جن کا کام منشور کو آسان بنا کر ووٹروں کے پڑھنے اور سمجھنے لائق بنانا ہوتا ہے۔

ووٹروں کی ہی طرح میڈیا اور اس کے تبصرہ نگار بھی اکثر و بیشتر روزمرہ کی سیاسی گپ شپ پر تجزیہ پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ دہائیوں کے دوران جتنا پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے منشور کا معیار پستی کا شکار ہوا ہے اتنا ہی سیاسی تبصرہ نگاروں کا معیار بھی کم ہوا ہے۔

اس موضوع پر تحقیق کے دوران مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ برٹش ہندوستان میں 1946ء کے انتخابات کے دوران پاکستان کی بانی سیاسی جماعت، آل انڈیا مسلم لیگ، کے منشور نے کارکنوں اور ووٹروں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے میں کس قدر اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان انتخابات میں تمام مسلم اکثریتی علاقوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کی فتح کی وجہ سے قلیل مدت کے اندر یعنی 1947ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا۔

23 مئی 1945ء کو شائع ہونے والی ایسٹرن ٹائمز (لاہور سے شائع ہونے والا ایک اخبار جو اب بند ہوچکا ہے) کے مطابق آل انڈیا مسلم لیگ کے مرد و خواتین کارکنان پارٹی منشور کو غور و فکر کے ساتھ پڑھنے کے بعد پنجاب میں زبردست انداز میں انتخابی مہم چلا رہے تھے۔

پڑھیے: 2018ء کے انتخابات ’الیکٹیبلز‘ کے لیے مشکل ثابت کیوں ہوسکتے ہیں؟

یہ ایک غیر معمولی منشور ہے۔ کسی بھی طرح سے یہ زیادہ طویل نہیں اور اس کا ہر ایک لفظ دمدار ہے۔ 31 اکتوبر 1944ء کو چھپنے والے اس منشور کا اکثر و بیشتر حصہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ایک مسلمان رکن کی سربراہی میں نظریہ دانوں کے ایک چھوٹے گروپ نے لکھا تھا۔ گروپ کی سربراہی کرنے والے اس نفیس شخص کا نام دانیال لطیفی تھا جن کی آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت کو پارٹی سربراہ محمد علی جناح نے ہری جھنڈی دکھائی تھی۔

تاریخ کی پروفیسر اور مصنفہ عائشہ جلال نے 2000ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب سیلف اینڈ ساورنٹی میں اس منشور کا تھوڑا مفصل انداز میں جائزہ لیا ہے۔ اس منشور میں ایک ایسے پاکستان کی بات کی گئی ہے جو کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی حکومت میں مسلم اور غیر مسلموں دونوں کے لیے ہی فائدہ مند ہوگا۔

منشور یہ بھی واضح کرتا ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے ماتحت ریاست اور قوم ایک دوسرے کے متوازی ہوں گی اور نظم و ضبط اور کسی قسم کے تنازع سے آزاد معاشرے کی تشکیل کے لیے کسی اچھے موقعے پر دونوں آپس میں ہم آہنگ ہو جائیں گے۔‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ منشور میں اسلام کا سیاسی نظریے کے طور پر تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

بلکہ، منشور پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر بتاتا ہے جسے دیوار سے لگی مسلم اقلیت نے بنانا تھا۔ منشور میں مزید یہ لکھا ہے کہ ہندوستان کی اقلیت کا بنایا ہوا ملک خطے میں موجود تمام اقلیتی مذاہب کی مشکلات کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکے گا بہ نسبت اس ملک کے جو کہ ابھرتی ہوئی ’اونچی ذات والی ہندو اکثریت‘ کے ہاتھوں میں ہوگا۔

تاریخ دان اور مصنف آئی ایچ ٹیلبوٹ 1946ء کے پنجاب الیکشن پر اپنی مفصل تحقیق (جو کہ ماڈرن ایشیا اسٹڈیز کے 1980ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی) میں لکھتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور کو اکثر 'ہر گروہ کے مفادات کو مطمئن کرنے کی موقع پرستانہ انداز میں کوشش' قرار دیتے ہوئے کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

مگر کئی ایسے بھی لوگ ہیں جن کے مطابق یہی بات درحقیقت اس منشور کے غیر معمولی ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ 1946ء کے آتے آتے، اس منشور نے نہ صرف تقریباً تمام طبقات کے مسلمانوں کو اپنی طرف متوجہ کیا بلکہ کئی مسیحیوں اور زرتشتوں اور ’شیڈول کلاس ہندوؤں‘ (بالخصوص بنگال میں) نے بھی جماعت میں شمولیت اختیار کی۔

دوسری طرف، ایک ایسا منشور جو ملک کی تشکیل کے بعد سے آج تک نمایاں حیثیت رکھتا ہے وہ ہے پاکستان پیپلز پارٹی کا 1970ء میں مرتب کیا جانے والا پارٹی منشور۔ جیسا کہ اوپر بھی بیان کرچکے ہیں کہ ان انتخابات کے دوران اکثر سیاسی پارٹیوں کے منشور اعلیٰ معیار کے حامل تھے۔ مگر ماہرین پیپلز پارٹی کے 1970ء کے منشور کو ہی خطے میں لکھے گئے غالباً ایک سب سے بہترین منشور کے طورپر گردانتے ہیں۔

پڑھیے: انتخابات 2018: کیا نوجوان سیاسی منظرنامے کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں؟

اس کے پیچھے ایک ٹھوس وجہ بھی ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو جو اپنی سیاسی فراست کے لیے جانے جاتے تھے، انہوں نے چند زیرک دانشوروں کو اپنے گرد بٹھا لیا تھا جنہوں نے اس منشور کو مرتب کیا تھا۔

ان میں مایہ ناز مارکسی نظریہ دان جے اے رحیم، سوشلسٹ ماہر اقتصادیات ڈاکٹر مبشر حسن، ’اسلامی سوشلسٹ‘ کے نظریہ ساز حنیف رامے اور ایک پکے سوشلسٹ کارکن شیخ محمد راشد شامل تھے۔

وہ منشور طویل اور مربوط تھا، اور دانشورانہ معیار کے ساتھ لکھا گیا تھا۔ منشور خطے کی معاشی اور سیاسی تاریخ اور اس کے ساتھ جو حالات پیپلزپارٹی کی تخلیق کا باعث بنے، ان کا منظم انداز میں جائزہ لیتے ہوئے پاکستان میں جمہوریت اور سوشلزم کے لیے پختہ کیس پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد بڑے ہی مفصل انداز میں یہ بتانا شروع کرتا ہے کہ ان کی پارٹی نے بڑی اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی اصلاحات لانے کے لیے کس طرح سے منصوبہ بندی کی ہے تا کہ ایک مضبوط، جمہوری اور ترقی پسند پاکستان ابھرسکے۔

تاہم 1977ء کے متنازع انتخابات کے دوران پارٹی منشوروں کے معیار میں ڈرامائی انداز میں تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ جولائی 1977ء میں ایشین سروے کی ایک تحریر میں تاریخ دان لارینس زیرنگ بتاتے ہیں کہ 1977ء میں پیپلز پارٹی کا منشور اپنے 1970ء کے منشور کی محض ایک غیر متاثر کن نقل تھی جبکہ حزب اختلاف کے اتحاد کا منشور پیپلز پارٹی کی حکومت پر شدید تنقید کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

ووٹروں کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت کے اندر شامل اقتصادی، سیاسی اور سماجی مسائل کی تاریخی حقیقت کو جاننے کی صلاحیت کو پرکھنا اور اس کا اندازہ لگانا بہت ضروری ہے اور یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اس سیاسی پارٹی کے پاس مسائل کو حل کرنے کا کیا منصوبہ ہے۔ یہ سب سیاسی جماعتوں کے منشور کو دیکھ کر جانا جاسکتا ہے۔

میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں محض ’کھوکھلے نعرے‘ ہی انتخابی کامیابی دلوانے میں کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ہم اسی خطے میں 1946ء کا منشور دیکھ چکے ہیں اور 1970ء کا منشور بھی دیکھ چکے ہیں، جنہوں نے ایسے انتخابی رجحانات اور رویے کو جنم دیا جو کہ 1970ء کے بعد نظر آنے والے انتخابی رجحانات اور رویے سے کافی زیادہ معقول تھے۔

یہ مضمون 27 مئی 2018ء کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں