کراچی: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم نے پانی کی قلت کے خاتمے کا تہیہ کر لیا ہے، اب سپریم کورٹ ڈیمز بنانے سے متعلق آگے بڑھے گی اور کردار ادا کرے گی۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کالا باغ ڈیم سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران سابق چیئرمین واپڈا ظفر محمود، ایڈووکیٹ محیب پیرزادہ اور دیگر پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران ظفر محمود نے بتایا کہ 90 سے 95 فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے، 70 سال بعد اب پالیسی بنائی گئی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معلوم ہوا ہے کہ پانی پالیسی پر سب کا اتفاق نہیں ہے۔

سابق چیئرمین واپڈا ظفر محمود نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل ( سی سی آئی ) میں کیسے اتفاق کرایا جائے، اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ 80 کی دہائی میں سنا تھا کہ کالا باغ ڈیم پر تنازع ہے، جن ڈیموں پر تنازع نہیں اتنے برسوں میں کم از کم وہ بنا دیتے،حکومتیں غیر متنازع ڈیمز کیوں نہیں بناتیں۔

مزید پڑھیں: کراچی میں پانی کے شدید بحران کا خدشہ

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم اس وقت کالا باغ ڈیم کی بحث میں نہیں پڑیں گے، 4 بھائی جس پر متفق نہیں تو پھر متبادل کیا ہے، اس متبادل کو تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پانی کی قلت کیسے ختم ہوگی، معلوم ہے آئندہ وقتوں میں پانی کی کیا اہمیت ہوگی؟


سماعت کے دوران چیف جسٹس کے ریمارکس



• ’10 سال بعد لوگوں کو کوئٹہ سے ہجرت کرنا پڑے گی‘

• ’ہدایت کے باوجود پنجاب حکومت نے ٹکے کا کام نہیں کیا‘

• ’پرویز مشرف سے کسی کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟‘

سماعت کے دوران چیف جسٹس اور ظفر محمود کے درمیان مکالمہ بھی ہوا، سابق چیئرمین واپڈا نے بتایا کہ کالا باغ ڈیم بنانے پر لوگوں کو مکمل آگاہی نہیں، تنازع کے بعد واپڈا کے چیئرمین کی نشست سے استعفیٰ دیا۔

اس دوران کمرہ عدالت میں کالا باغ ڈیم پر پروجیکٹر پر بریفنگ دیتے ہوئے ان کا کہا تھا کہ ماحولیات کی تبدیلی سے پاکستان میں سیلاب آنا شروع ہوئے، گلیشیر تیزی سے پگھلنا شروع ہوچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ زیر زمین پانی خطرناک حد تک نیچے جاچکا ہے،کوئٹہ کا پانی اتنا نیچے جاچکا ہے کہ بحالی میں 2 سو سال لگیں گے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 10 سال بعد تو کوئٹہ میں پینے کا پانی نہیں ہوگا، یعنی 10 سال بعد لوگوں کو کوئٹہ سے ہجرت کرنا پڑے گی۔

سابق چیئرمین واپڈا نے بتایا کہ لوگوں میں پانی کے استعمال اور بچت پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے، صنعتی ماحول سے زیر زمین پانی بھی خراب ہو رہا ہے، صنعتوں سے متعلق کوئی مربوط پالیسی نہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معلوم ہے کہ صنعتیں فضلہ صاف کرنے کے بجائے نالوں میں پھینک رہی ہیں،لاکھوں گیلن گندا پانی سمندرمیں جارہا ہے۔


سابق چیئرمین واپڈا کی عدالت میں بریفنگ



• ’بھارت نے 3 دریاؤں کے پانی پر قبضہ کر لیا ہے‘

• ’ڈیمز بنانے سے متعلق ہم نے کوتاہی کی ہے‘

• ’بھارت تسلسل کے ساتھ پانی بند کرنے کی کوشش کرے گا‘

دوران سماعت ظفر محمود نے بتایاکہ اس معاملے کا حل یہ ہے کہ صنعتی فضلہ کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹ بنائے جائیں، سندھ طاس معاہدے کو بھی خطرات ہوچکے ہیں، بھارت نے 3 دریاؤں کے پانی پر قبضہ کر لیا ہے، دریائے راوی، ستلج، بیاس کے پانی پر بھارت نے قبضہ کر لیا، جب سیلاب آتا ہے تو بھارت پانی چھوڑ سکتا ہے۔

ظفر محمود نے بتایا کہ بھارت کے ڈیمز میں تکنیکی طور پر زیادہ پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے، ڈیمز بنانے سے متعلق ہم نے کوتاہی کی ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا حکومتوں کو ان کا ادراک نہیں رہا، جس پر ظفر محمود نے بتایا کہ تمام حکومتیں ہی اس مجرمانہ غفلت کی ذمہ دار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس نے ملک میں پانی کی قلت کا نوٹس لے لیا

سابق چیئرمین واپڈا کا کہنا تھا کہ بھارت تسلسل کے ساتھ پانی بند کرنے کی کوشش کرے گا اور ہمیں پانی کے حوالے سے مزید تنگ کر ے گا۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ زندگی کے لیے سب سے زیادہ پانی کی اہمیت ہے، یہ بتائیں عدالت اس میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے، اگر پانی نہیں تو زندگی کہاں رہے گی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پانی بحران دور کرنے کے لیے ایک ماہ پہلے پنجاب حکومت کو ہدایت دی تھی لیکن ہدایت کے باوجود پنجاب حکومت نے ٹکے کا کام نہیں کیا، اب توجہ نہیں دیں گے تو حالات کبھی نہیں سدھریں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دنیا بھر کے ایئرپورٹس پر اتنا پانی ملتا ہے،جس سے ہاتھ دھو لیں لیکن یہاں تو ٹونٹی کھول کر پانی بہاتے رہیں کوئی مسلہ نہیں۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ محیب پیرزادہ کا کہنا تھا کہ کالا باغ ڈیم کا معاملہ متنازع ہوچکا ہے، چاروں صوبوں کے عوام نے کالا باغ ڈیم کے خلاف بات کی ہے اور اسے خطرہ قرار دیا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سب خطرہ محسوس نہ کریں، ہم کالا باغ ڈیم پر بات نہیں کررہے، ہم چاہ رہے ہیں کہ پانی کے مسائل پر بات ہو اور پانی بحران پر قابو پایا جاسکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے گزشتہ روز پرویز مشرف کو آنے کا کہا تو اس کا بھی سب کو خطرہ ہورہا ہے، پرویز مشرف سے کسی کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پرویز مشرف آئیں اور قانون کا سامنا کریں، کسی کے لیے خطرے کی بات نہیں ہونی چاہیے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ بتایا جائے کہ ملک میں ڈیمز کس طرح بنائے جائیں، قانون بنانے کی صلاحیت ملک میں ختم ہو چکی، آپ سفارشات دیں ہم پارلیمان سے سفارش کریں گے۔

انہوں نے کہاکہ لا اینڈ جسٹس کمیشن کے ذریعے قانون بنا کر پارلیمان کو سفارش کی جا سکتی ہے، اگر قوم سپریم کورٹ کو اختیار دے تو سپریم کورٹ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان پانی کی قلت کا شکار ملک بن رہا ہے، ماہرین

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم ایک ٹیم بنا دیتے ہیں جس میں اعتزاز احسن ودیگر ماہرین کی خدمات لیں گے، عید کے بعد سپریم کورٹ کا لا اینڈ جسٹس ڈیپارٹمنٹ سیمینار کرائے گا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ہم نے پانی کی قلت کے خاتمے کا تہیہ کر لیا ہے، اب سپریم کورٹ ڈیمز بنانے سے متعلق آگے بڑھے گی اور کردار ادا کرے گی۔

اس موقع پر سابق چیئرمین واپڈا نے کہا کہ میں اپنی خدمات دینے کے لیے تیار ہوں،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماہرین تجاویز دیں، بیٹھ کر ایس او پیز بنائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Saleem Ahmad Jun 09, 2018 01:58pm
Water of branch rivers of Indus ie Kabul,Sawat,Kurram,Harrow and Sowan rivers can only be arrested in KBG Dam.These branch rivers water flow regularly and also flood water in rainy season,Can we afford wastage of water further In absence of KBG Dam..