گلگت: پاکستان کی خاتون کوہ پیما ثمینہ بیگ نے ملک خواتین پر مشتمل ٹیم کو دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرانے کے لیے ان کی رہنمائی کا فیصلہ کرلیا۔

یہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ پاکستانی خواتین ٹیم کی صورت میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کریں گی۔

یہ بھی پڑھیں: ’ماؤنٹ ایورسٹ‘ سر کرنے والے پاکستانی کوہ پیما کی وطن واپسی

ڈان سے بات کرتے ہوئے ثیمنہ بیگ نے کہا کہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی خواتین کو پہاڑ چڑھنے کا قدرتی تجربہ ہوتا ہے لیکن انہیں بنیادی سہولیات کی کمی اور مقامی روایت سے جوڑے خیالات کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔

واضح رہے کہ رواں برس جولائی میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے تحت کوہ پیما ثمینہ بیگ کو سفیر خیر سگالی مقرر کیا گیا تھا۔

ثیمنہ بیگ نے بتایا کہ ان کا مقصد کوہ پیمائی کے شعبہ میں خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔

اور اسی مقصد کے تحت انہوں نے پاکستان یوتھ آؤٹ ریچ کے زیر اہتمام کیمپ 2014 میں شمشال کے ٹریننگ کیمپ کا اہتمام کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں کوہ پیمائی کی صنعت کو سنگین نوعیت کے خطرات لاحق

ان کا کہنا تھا کہ آؤٹ ڈور کھیل کا مقصد خواتین کو غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی فعال کردار ادا کرنا تھا، پروگرام میں سندھ، پنجاب، سوات، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے تقریباً 200 لڑکیاں شریک ہوتی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مالی وسائل کی کمی کے باعث پروگرام جاری نہیں رکھا جا سکا جبکہ ہنزہ میں شمشال کے مقام پر 13 ہزار 451 فٹ کی بلندی پر دنیا کا بلند ترین کھیل کا میدان بنایا گیا تھا۔

ثمینہ بیگ نے بتایا کہ بنیادی ڈھانچہ خود تعمیر کیا گیا جبکہ گرمیوں میں فٹ بال اور کرکٹ کے مقابلے جبکہ سردیوں میں کوہ پیمائی اور آف روڈ بائیک کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پہاڑوں کے دیس میں کوہ پیماؤں کی ناقدری کیوں؟

انہوں نے بتایا کہ ‘تمام تر سرگرمیوں کا مقصد خواتین کی حوصلہ افزائی اور حکومت کی مدد کے بغیر گلگت بلتستان میں سیاحت کو فروغ دینا تھا۔

پاکستان کی خاتون کوہ پیما کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کی خواتین کو پہاڑ پر چڑھنے کا وسیع تجربہ ہوتا ہے، اس خطے کی لڑکیاں چوٹی سر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن رہنمائی اور بنیادی سہولیات کا فقدان ان کے لیے مسائل کا باعث بن رہا ہے۔


یہ خبر 20 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں