لاہور: ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل) نے آئندہ عام انتخابات کے لیے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کردی جس کے مطابق وہ قومی اسمبلی کی 80 اور صوبائی اسمبلیوں کی 185 نشستوں سے اللہ اکبر تحریک (اے اے ٹی) کے انتخابی نشان پر امیدوار الیکشن کے لیے میدان میں اتارے گی۔

ایم ایم ایل کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق لاہور سے قومی اسمبلی کی چار نشستوں این اے 125، این اے 132، این اے 133، اور این اے 134 سے امیدوار انتخابات میں حصہ لیں گے۔

علاوہ ازیں صوبائی دارالحکومت سے پنجاب اسمبلی کی16 نشستوں پر ایم ایم ایل کے امیدوار اے اے ٹی کے ٹکٹ پر میدان میں ہوں گے۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے جماعت الدعوۃ کے ساتھ تعلقات کے سبب ایم ایم ایل کی رجسٹریشن پر پابندی عائد کردی تھی۔

مزید پڑھیں: ملی مسلم لیگ کا ’اللہُ اکبر تحریک‘ کے تحت الیکشن لڑنے کا فیصلہ

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اس فیصلے کے بعد ایم ایم ایل نے غیر معروف لیکن الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعت اے اے ٹی کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا۔

اللہ اکبر تحریک الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے جس کے سربراہ میاں احسان باری ہیں اور انہیں ’کرسی‘ کا انتخابی نشان الاٹ کیا گیا ہے، یہ جماعت 2011 میں رجسٹرڈ ہوئی تھی تاہم یہ 2013 کے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکی تھی۔

ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے اے اے ٹی کے سربراہ میاں احسان باری نے کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ الحاق کی خبروں کر مسترد کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم ایم ایل نے اے اے ٹی کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے جن کی تعداد 300 سے زائد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار

ان کا مزید کہنا تھا کہ نہ صرف ایم ایم ایل بلکہ کراچی کی ایک سیاسی جماعت (پاکستان ہمدرد پارٹی) نے بھی ہمارے امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

اے اے ٹی کے سربراہ نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ 2018 کے انتخابات میں کرسی کے انتخابی نشان پر صرف ان کی جماعت کے ہی امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔

میاں احسان باری نے بتایا کہ ان کی جماعت کا اپنا آئین ہے اور ٹکٹ دینے کا طریقہ کار ہے، اور ان کی جماعت کے کارکنان کو اے اے ٹی کا ٹکٹ دیا گیا ہے جبکہ دیگر سیاسی جماعتیں صرف ان کی حمایت کر رہی ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اے اے ٹی نے کراچی کی سیاسی جماعت ہمدرد پارٹی کے امیدواروں کو بھی ٹکٹ جاری کیے ہیں، تاہم اس کے لیے انہیں اے اے ٹی کا ممبر بننے کی اجازت دی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: امریکا نے ملی مسلم لیگ، تحریک آزادیِ کشمیر کو دہشتگرد تنظیم قرار دے دیا

میاں احسان کا کہنا تھا کہ اسی طرح کا طریقہ کار ان تمام سیاسی جماعتوں پر لاگو ہوتا ہے جو آئندہ انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے اپنی جماعت کا کسی بھی مذہبی یا فرقہ ورانہ وابستگی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی اعداد و شمار تمام سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔

دوسری جانب ایم ایم ایل کے صدر سیف اللہ خالد کا کہنا ہے کہ ’یہ ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے، اس ملک میں سیکولر قوتوں کے لیے جگہ نہیں چھوڑی جائے گی‘۔

ایم ایم ایل ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے 265 امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی منظور ہوچکے ہیں، اور یہ ’کرسی‘ کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لیں گے۔


یہ خبر 21 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں