چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے قرضہ معافی کیس میں 222 افراد کو تین ماہ میں واجب الادا قرض کا 75 فیصد حصہ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے قرضہ معافی ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے رانا حیات کے حوالے سے استفسار کیا کہ کیا یہ وہی ہیں جو انتخاب لڑ رہے ہیں جس پر وکیل صفائی اکرام چوہدری نے جواب میں کہا کہ رانا حیات کا نام 222 افراد کی فہرست میں نہیں ہے۔

وکیل صفائی کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ان کا نام 222 افراد کی فہرست میں نہیں ہے تو اس معاملے کو بھی ہم دیکھ لیں گے، جب قرض لے کر کھایا گیا اس وقت خیال نہیں کیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سب کے لیے ایک ہی حکم جاری کر یں گے اور جس نے پیسہ کھایا ہے اس کو واپس کرنا پڑے گا جس کے بعد کیس کی سماعت 30 جون تک ملتوی کر دی گئی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ہم قرض معافی سے متعلق تمام 222 مقدمات بینکنگ کورٹس کو بھجوا دیتے ہیں اور بینکنگ کورٹس اس کیس کا خود جائزہ لیں گی۔

مزید پڑھیں:قرضہ معافی کیس: ’اگر قوم کا پیسہ نہ لاسکے تو کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں‘

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ قرض معاف کرانے والے افراد 25 فیصد پرنسپل رقم ادا کریں، یہ پیش کش قبول نہ کرنے والوں کے مقدمات بینکنگ کورٹس بھجوا دیں گے۔

انھوں نے کہا تھا کہ بینکنگ کورٹس کو 6 ہفتوں میں مقدمات کا فیصلہ کرنے کی ہدایات دیں گے، اس کے علاوہ 25 فیصد قرض معافی کی رقم کے لیے سپریم کورٹ کا اکاؤنٹ کھول کر 3 ماہ میں جمع کرانے کا حکم دیں گے۔

اس سے قبل سماعت میں چیف جسٹس نے 222 کمپنیوں سے ایک ہفتے میں تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ اگر قوم کے پیسے واپس نہ کیے تو معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کردیں گے اور قرض نادہندگان کی جائیدادیں بھی ضبط کرلی جائیں گی۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jun 27, 2018 08:48pm
مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ 10 سال پہلے 10 لاکھ قرض لینے والا اور اب 10 سال بعد 10 لاکھ ہی کیوں واپس کررہا ہے۔