دبئی: ایران میں پانی کی قلت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شریک افراد اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپیں پرتشدد صورت اختیار کرگئیں، جس میں حکام کے مطابق 11 افراد زخمی ہوگئے۔

امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس ’اے پی‘ کے مطابق ایران کی سرحد کے قریب واقع جنوب مغربی صوبے خوزیستان کے شہر خرمشھر میں گزشتہ ایک سال سے جاری خشک سالی کے دوران نمکین اور کیچڑ زدہ پانی آنے کی شکایات پر بڑی تعداد میں مقامی افراد احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایران کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے بعد سے معاشی بحران کا سامنا ہے اور اس سلسلے میں ایران میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایران سے تیل خریدنے والے ممالک پرمعاشی پابندیاں لگادیں گے،امریکا

اس سلسلے میں تیل کی پیدوار والے صوبے خوزیستان کے عرب اکثریت پر مشتمل آبادی والے شہر خرمشھر، آبادان اور دیگر شہروں میں مظاہرے ہوئے، خرمشھر میں ہونے والا احتجاج ابتدائی طور پر پر امن تھا اور مظاہرین عربی اور فارسی میں نعرے لگا رہے تھے۔

تاہم اس کے بعد مظاہرین سیکیورٹی اہلکاروں پر پتھراؤ کرنے لگے جس سے حالات کشیدہ صورتحال اختیار کرگئے، اس حوالے سے سرکاری ٹیلی ویژن کی جانب سے نشر کی گئی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ٹوٹے ہوئے شیشے فٹ پاتھ پر پڑے ہیں جبکہ اے ٹی ایم مشینوں کو بھی توڑا گیا جس کے بعد فائرنگ کے نتیجے میں خواتین اور بچوں میں بھگدڑ بھی مچ گئی۔

مزید پڑھیں: امریکی کپمنی کا ایران کو طیاروں کی فروخت سے انکار

نیم سرکاری خبر رساں ادارے ایسنا کے مطابق اس حوالے سے ایران کے وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فضلی نے صحافیوں کو بتایا کہ جھڑپوں میں کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں، بعد ازاں نائب وزیر داخلہ نے تصدیق کی کہ اس پرتشدد صورتحال میں ایک شہری اور 10 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

ایرانی وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ مظاہرے ہمارے مخالفین اور اس موقع سے فائدہ اٹھانے والے افراد کی جانب سے حکومت کے خلاف پروپیگنڈا کے طور پر کیے جارہے ہیں، آپ دیکھیں کہ وہ ان واقعات کو غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ پر کس طرح جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

اس ضمن میں ایران کے موسمیاتی ادارے کا کہنا تھا کہ ملک کے 97 فیصد حصے کو کسی نہ کسی طرح خشک سالی کا سامنا ہے جبکہ تجزیہ کاروں نے بھی کچھ کسانوں سے پانی لے کر دوسرے کسانوں کو پانی منتقل کرنے اور پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے واضح اقدامات نہ کرنے پر حکومت کا اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘ایران کو جوہری ہتھیار بنانے پر دنیا کا قہر برداشت کرنا پڑےگا

اس حوالے سے اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم برائے خوارک و ذراعت کا کہنا تھا کہ ایران کو ماضی میں بھی خشک سالی کا سامنا رہا ہے، تاہم گزشتہ ایک دہائی سے ایران میں خشک سالی کی صورتحال بہت خراب ہوچکی ہے۔

دوسری جانب اس سے قبل تہران میں ایرانی پارلیمنٹ کے سامنے بھی مسلسل 3 روز تک احتجاج کیا جاتا رہا، جس میں مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور احتجاج کرنے والوں پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے، اس احتجاجی ریلی کے نتیجے میں شہر کا مرکزی بازار بھی عارضی طور پر بند کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایران: پُرتشدد مظاہرے، پولیس کے ساتھ جھڑپ میں 2 افراد ہلاک

خیال رہے کہ ایرانی ریال کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت سرکاری نرخ 42 ہزار سے بڑھ کر 90 ہزار ہوجانے کے سبب عوام میں شدید اشتعال پھیل گیا تھا، جس سے لوگوں کی بچت میں کمی اور دکانداروں کی جانب سے اشیا کی غیر مستحکم قیمتوں کے سبب ذخیرہ اندوزی کا آغاز ہوگیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں