کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 247 پر 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں سب سے بڑے اور کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جارہی ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، متحدہ مجلسِ عمل (ایم ایم اے) اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے اہم ترین امیدوار میدان میں موجود ہیں۔

واضح ہے کہ کراچی کا حلقہ این کے 247 پرانی حلقہ بندیوں کے مطابق این اے 250 ہے، جس میں نئی حلقہ بندیوں کے مطابق این اے 249 کے بھی کچھ علاقوں کو شامل کرلیا گیا ہے۔

پرانی حلقہ بندیوں کے مطابق این اے 249 پر 2002 کے انتخابات سے ایم کیو ایم پاکستان کا امیدوار ہی کامیاب رہا جبکہ این اے 250 سے کبھی بھی کسی ایک جماعت کا امیدوار کامیاب نہیں رہا، یہاں پر 2002 میں ایم ایم اے کے امیدوار، 2008 میں ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار جبکہ 2013 میں پی ٹی آئی کے امیدوار نے کامیاب حاصل کی۔

تاہم ان دونوں حلقوں کے کچھ علاقوں کو ملانے کی وجہ سے امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہاں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔

مزید پڑھیں: الیکشن 2018: ووٹرز اپنے انتخابی حلقوں سے لاعلم

اس حلقے میں کل رجسٹر ووٹرز کی تعداد 5 لاکھ 43 ہزار 9 سے 64 ہے جن میں 2 لاکھ 94 ہزار 7 سو 13 مرد اور 2 لاکھ 49 ہزار 2 سو 51 خواتین ووٹرز ہیں۔

گزشتہ انتخابات میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کے عارف علوی کامیاب ہوئے تھے، تاہم اس مرتبہ بھی وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر انتخابات کی دوڑ میں شامل ہیں جبکہ اس حلقے سے پی پی پی نے عبدالعزیز میمن اور ایم کیو ایم پاکستان نے ڈاکٹر فاروق ستار کو میدان میں اتارا ہے جو پہلے بھی اس حلقے سے الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حلقے سے دیگر سیاسی جماعتوں کے بھی اہم امیدوار میدان میں ہیں، جن میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما مشاہد اللہ خان کے صاحبزادے عفنان اللہ خان، ایم ایم اے کے محمد حسین محنتی جبکہ حال ہی میں پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرنے والی فوزیہ قصوری بھی شامل ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کو جو حمایت حاصل تھی وہ اب منتشر ہوگئی کیونکہ جن لوگوں پر پی ٹی آئی کا انحصار تھا ان میں زیادہ تر افراد نے اپنے ووٹ کو اس علاقے میں رجسٹر ہی نہیں کروایا اور وہ اپنے آبائی علاقوں میں ووٹ دینا پسند کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن 2018: ‘عبدالقادر پٹیل آرٹیکل 62 پر پورا نہیں اترتے’

نئی حلقہ بندیوں میں سب سے زیادہ فائدہ پی پی پی اور ایم کیو ایم پاکستان کو ہوا جنہیں ان ووٹرز کی بھی حمایت حاصل ہوگی جو پہلے اس حلقے کا حصہ نہیں تھے۔

این اے 247 کے بارے میں تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس علاقے میں برادری کی بنیاد امیدواروں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے جہاں 30 ہزار سے زائد ووٹ میمن برادری کے ہیں اور پی پی پی کے امیدوار عبدالعزیز، ایم ایم اے محمد حسین محنتی اور ایم کیو ایم پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار، تینوں کا تعلق میمن برادری سے ہے۔

گزشتہ انتخابات کی طرح ایک مرتبہ پھر سماجی کارکن جبران ناصر اس علاقے سے اپنی قسمت آزما رہے ہیں، تاہم تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ جبران ناصر کے لیے اس حلقے میں کم آمدنی والے ہجرت کالونی جیسے علاقے زیادہ فائدہ مند ہیں اور وہ حلقے میں پختون آبادی کے ووٹ کی جانب توجہ مرکوز کریں گے۔

مزید پڑھیں: انتخابات 2018: پولنگ سے قبل ہی پیپلز پارٹی کے امیدوار بلامقابلہ منتخب

تجزیہ نگاروں کا یہ بھی ماننا ہے کہ جبران ناصر نے نقیب اللہ محسود کے قتل پر سماجی کارکن کی حیثیت سے اہم کردار ادا کیا اور وہ پختون نوجوانوں میں ایک نامور شخصیت بن کر بھرے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ جبران ناصر کو کراچی کے علاقے ڈیفنس اور کلفٹن میں بھی لوگوں کی حمایت حاصل ہے، کیونکہ 2013 کے عام انتخابات کے دوران سماجی کارکن سبین محمود نے ان کی حمایت میں سی ویو پر ریلی منعقد کی تھی۔

علاوہ ازیں اس حلقے میں کھارادر کے علاقے سے نئی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) بھی ابھر کر سامنے آئی جسے اپنے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے ووٹوں کی امید ہے، ٹی ایل پی کراچی کے سربراہ علامہ سید زمان شاہ جعفری این اے 247 سے انتکابات لڑرہے ہیں۔


یہ خبر 4 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں