سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے ان کے خلاف کرپشن کے حوالے سے دائر ریفرنس کی سماعت کھلی عدالت میں کرنے کی اجازت دی جو پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا۔

سُپريم جوڈيشل کونسل نے اپنے گزشتہ حکم پر نظر ثانی کرتے ہوۓ جسٹس شوکت عزيز صديقی کی اپنے خلاف ريفرنس کی سماعت کُھلی عدالت ميں کرنے کی درخواست منظور کر لی۔

خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صديقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے حکم کو چیلنج کیا تھا جس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے حکم دیا کہ مذکورہ جج ان کیمرا کارروائی کے حق سے دستبردار ہوتا ہے تو ایس جے سی ایسے جج کے خلاف کارروائی کھلی عدالت کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے کونسل کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کی ہدایت بھی کی تھی۔

پاکستان کی عدالتی تاريخ ميں يہ پہلا موقع ہو گا کہ اعلی عدليہ کے جج کے مُطالبے پر کارروائی کھلی عدالت ميں ہو گی۔

مزید پڑھیں:جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ایک اور شو کاز نوٹس

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف 30 جولائی کو کھلی عدالت میں سماعت ہوگی۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے سابق ملازم نے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے گھر کی تزئین آرائش کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ریفرنس دائر کیا تھا۔

سپریم جودیشل کونسل نے 22 فروری 2018 کو ایک اور کیس میں ملک کے اہم ادارے کے حوالے سے غیرضروی بیان دینے پر بھی دائر ایک ریفرنس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف جاری ہونے والے شوکاز نوٹس میں بتایا گیا تھا کہ ان کا تبصرہ بادی النظر میں اہم آئینی ادارے کے احترام کو کمزور کرتا ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف یہ شو کاز نوٹس ایڈووکیٹ کلثوم خلیق کے توسط سے رکنِ قومی اسمبلی جمشید دستی کی جانب سے جمع کرائے گئے ریفرنس پر جاری کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس

سپریم کورٹ سے جاری اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سربراہی میں فل کورٹ اجلاس منعقد ہوا جہاں سپریم کورٹ میں تعینات ہونے والے نئے ججوں کو خوش آمدید کہا گیا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اجلاس کا مقصد انصاف کی فراہمی اور سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمات کا جائزہ لینا تھا۔

چیف جسٹس نے اجلاس کے دوران عوام کو انصاف کی فراہمی میں ججوں کے کردار کی تعریف کی اور سپریم کورٹ کے انتظامی اور عدالتی امور بھی زیر بحث آئے۔

اجلاس میں ستمبر 2017 سے جون 2018 تک کے مقدمات کا جائزہ لیا گیا اور اس دوران 16 ہزار 897 مقدمات نمٹائے گئے جبکہ اس دوران مجموعی طور پر 19 ہزار 98مقدمات دائر ہوئے۔

اعلامیے کے مطابق اس وقت سپریم کورٹ میں مجموعی طور پر 39 ہزار 317 مقدمات زیر التوا ہیں کیونکہ مقدمات دائر ہونے کی شرح میں بڑی حد تک اضافہ ہوا جو عدالت پر عوامی اعتماد کا اظہار ہے۔

چیدف جسٹس نے فل کورٹ سے کیس منیجمنٹ کی حکمت عملی کو موثر بنانے کی تجاویز طلب کرلیں جبکہ سپریم کورٹ رولز 1980 میں ترامیم کے لیےسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تجاویز پر بھی غور کیا گیا۔

اجلاس کے دوران ترامیم کے لیے جسٹس گلزار احمد، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں