روہنگیا بحران کی رپورٹنگ پر 2 صحافیوں کو مقدمات کا سامنا

اپ ڈیٹ 10 جولائ 2018
گرفتار صحافی وا لون کو مقدمے سے قبل ہونے والی پیشی میں پولیس کی کڑی نگرانی میں عدالت لایا جارہا ہے—فوٹو: اے ایف پی
گرفتار صحافی وا لون کو مقدمے سے قبل ہونے والی پیشی میں پولیس کی کڑی نگرانی میں عدالت لایا جارہا ہے—فوٹو: اے ایف پی

یانگون: میانمار کی عدالت نے برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز سے تعلق رکھنے والے 2 صحافیوں پر روہنگیا کے خلاف قتل عام کی رپورٹنگ کے دوران راز داری برتنے کے ملکی قانون کی خلاف ورزی پر مقدمات چلانے کے احکامات دے دیے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ فیصلے کے دن کو ملکی تاریخ میں آزادانہ صحافت کا سیاہ دن قرار دیا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ میانمار کے شہری صحافی 32 سالہ ’وا لون‘، اور 28 سالہ ’یا سوئی او‘ کو دسمبر 2017 میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے پاس رخائن اسٹیٹ میں سیکیورٹی آپریشن سے متعلق حساس نوعیت کی دستاویزات تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار کے خلاف عالمی عدالت کی کارروائی،’سزا کا امکان نہیں‘

دونوں صحافی باضابطہ مقدمہ چلنے سے 7 ماہ قبل سے ہی زیر حراست ہیں، جنہیں میانمار کے راز داری برتنے کے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں مقدمے کی پہلی سماعت کے لیے 16 جولائی کی تاریخ مقرر کی گئی، دونوں صحافیوں پر اگر الزام ثابت ہوگیا تو انگریز دور کے بنے ہوئے قانون کے تحت انہیں 14 سال تک کی سزا ہوسکتی ہے۔

اس حوالے سے خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ دونوں صحافی بے گناہ ہیں اور وہ ستمبر میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے قتل عام کی رپورٹنگ کر کے صرف اپنی صحافتی ذمہ داری ادا کررہے تھے، ادارے نے عدالت پر زور دیا کہ دونوں صحافیوں کے خلاف مقدمہ خارج کیا جائے۔

مزید پڑھیں: میانمار کی فوج کا روہنگیا مسلمانوں کے قتل کا اعتراف

تاہم اس حوالے سے عدالت نے فیصلہ کیا کہ صحافیوں کے خلاف اس الزام کے کافی شواہد موجود ہیں کہ وہ سرکاری افسران سے معلومات اکھٹی کررہے تھے۔

دوسری جانب صحافیوں کے خلاف عدالتی حکم کو دائیں بازو کی تنظیموں اور غیر ملکی مبصرین کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اسے آزادی صحافت کے منافی قرار دیا گیا جبکہ اسے روہنگیا بحران کی رپورٹنگ کو روکنے کے مترادف دیکھا جارہا ہے۔

ادھر ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور آزادانہ تقریر کی تنظیم آرٹیکل 19 نے اس اقدام کو آزادی اظہار رائے کا گلہ گھوٹنے کی کوشش قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: جنسی تشدد پر میانمار کی فوج کو اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ میں شامل کردیا گیا

اس سلسلے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر آف کرائسز رسپانس ترانہ حسن کا کہنا تھا کہ یہ ’میانمار میں صحافت کے لیے تاریک دن ہے‘، اس کے ساتھ انہوں نے عدالتی حکم کو مضحکہ خیز اور سیاسی اقدام قرار دیا۔

اس حوالے سے آرٹیکل 19 کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ میانمار کی جانب سے رخائن اسٹیٹ میں جاری بحران کی رپورٹنگ روکنے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے اور حکومت کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوششیں ہیں۔


یہ خبر 10 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں