جہاں عمران خان کئی لوگوں کے نزدیک عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور باتونی طبقے کے پسندیدہ ہیں، وہیں یہ دیکھنا اب بھی باقی ہے کہ کیا کافی تعداد میں ووٹر انہیں ہمارا اگلا وزیرِ اعظم بننے کے لیے ووٹ دیتے ہیں یا نہیں۔

یہ ایک ایسا خواب ہے جس نے دو دہائیوں سے انہیں جکڑ رکھا ہے، شاید جب انہیں یہ مل جائے تو انہیں یہ زہر کے پیالے جیسا محسوس ہو۔ پہلی بات تو یہ کہ انہیں پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے کے لیے اتحاد قائم کرنا ہوگا اور یہاں پر ان کے پاس محدود آپشن ہیں۔

سندھ میں پی ٹی آئی کا اتحادی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اپنے آغاز سے ہی ایک بے جان سا اتحاد تھا جس میں پی پی پی کے سابقہ ارکان اور قوم پرست رہنما تھے جن میں سے زیادہ تر اپنی ایکسپائری ڈیٹ سے تجاوز کر چکے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ کا حمایت یافتہ تصور کیے جانے کے باوجود مذہبی تنظیموں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل محدود عوامی حمایت رکھتا ہے اور امکان نہیں کہ یہ مطلوبہ تعداد میں نشستیں حاصل کر پائے گا۔ یہی حال بنیاد پرست تحریکِ لبیک پاکستان کا بھی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ بھی تنی ہوئی رسی پر چل رہی ہے اور اس کے لیے اتنی تعداد میں نشستیں جیتنا مشکل ہو گا جنہیں دھاندلی کے ذریعے جیتنے کا اس پر الزام تھا۔

چنانچہ عمران خان کے پاس اتحاد کے لیے صرف پی پی پی کا ہی آپشن بچتا ہے۔ بھلے ہی پی ٹی آئی کے سربراہ بار بار اس امکان کو مسترد کر چکے ہیں مگر سیاست میں کیا دشمن کیا دوست؟ ہمارے سیاسی انجینیئروں نے ان دونوں جماعتوں سے اس سال کے شروعات میں ایک غیر معروف بلوچ سیاستدان کو سینیٹ چیئرمین بنوا دیا، چنانچہ ایسا کوئی اتحاد بنوانا بھی مشکل نہیں ہوگا۔

پڑھیے: خان صاحب ماضی کے وزرائے اعظم کا حال دیکھ کر سبق حاصل کیجیے

پی پی پی کو اس کے لیے بہت زیادہ ذہنی مشقت نہیں اٹھانی پڑے گی۔ زرداری سخت سودے بازی کریں گے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ عمران خان کس بری طرح اعلیٰ ترین عہدے کے خواہشمند ہیں۔ پی پی پی کے ان چند گنے چنے بااصول رہنماؤں کے علاوہ باقی سب وزارتی قلمدانوں کی مراعات و جاہ و جلال کے خواہشمند ہوں گے۔ سب سے اہم بات یہ کہ حکمران اتحاد میں جونیئر پارٹنر جیسا ایک چھوٹا کردار بھی زرداری کو مزید کرپشن کیسز سے کافی حد تک بچا سکتا ہے۔

اور نواز شریف کے حامی اکیلا چھوڑ دیے جانے پر کیسا برتاؤ کریں گے؟ اگر انہیں ضمانت مل بھی گئی تب بھی مسلم لیگ ن رکاوٹیں توڑ دینے کے لیے مشہور نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس وہ جیالے ہیں جو اپنے رہنماؤں کے لیے جیلیں بھریں گے۔

یہ ایک اسٹیٹس کو کی پارٹی ہے اور اس کے پاس کسی مقصد کے لیے ریاست کے خلاف جدوجہد کرنے کے لیے کارکن نہیں ہیں۔ چنانچہ بھلے ہی انتخابی میدان میں جو سامنے سامنے جو 'مساج' کیا جا رہا ہے، اس سے زیادہ کسی دھرنے یا لانگ مارچ کی توقع نہ رکھیں۔

مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ الیکشن کے دن مظلومیت کا کارڈ اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا: اگر نواز شریف کے کافی تعداد میں حامیوں نے پنجاب میں ووٹر ٹرن آؤٹ بڑھانے کا فیصلہ کر لیا تو اسٹیبلشمنٹ کا حساب کتاب ناکام بھی ہو سکتا ہے۔ یہ تاثر کہ خفیہ طاقتیں نواز شریف کے خلاف متحد ہوگئی ہیں، اگلے ہفتے کسی سرپرائز کی وجہ بھی بن سکتا ہے جس سے ہمارے سیاسی انجینیئروں کے منصوبے ناکام ہوجائیں گے۔

پر چلیں اگر عمران خان 'اُن' کے کندھوں پر چڑھ کر وزیرِ اعظم ہاؤس پہنچ بھی گئے، پھر؟ سب سے پہلے تو انہیں ایک تباہ حال معیشت اور تیزی سے گرتے ہوئے روپے پر توجہ دینی ہوگی۔ اب تک اپنے عوامیت پسند وعدوں میں انہوں نے معیشت کا استاد ہونے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ اگلے پانچ سالوں میں ایک کروڑ نوکریاں پیدا کرنے کا ان کا وعدہ اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کہ ان کا کرپشن ختم کرنے کا وعدہ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اگلے وزیرِ اعظم (چاہے جو بھی ہو) کو ہماری معیشت درست کرنے کے لیے نہایت سخت فیصلے لینے پڑیں گے جو کہ فی الوقت اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔ تیزی سے ڈوبتے ہوئے روپے کی وجہ سے ہماری درآمدی اخراجات بڑھیں گے اور ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، تو ہماری ایندھن درآمد کا خرچہ بھی بڑھے گا۔

نواز شریف خوش قسمت تھے کہ ان کے دورِ حکومت میں بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتیں 30 ڈالر سے نیچے چلی گئی تھیں، آج تیل 70 ڈالر سے اوپر ہے۔ یہ حقیقت کہ پاکستان کو اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے چین سے ہنگامی طور پر ایک ارب ڈالر کا قرضہ لینا پڑا اس بات کی علامت ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔

پھر اس کے علاوہ ایک انتہائی سرگرم عدلیہ کا بھی معاملہ ہے جس کے بارے میں تاثر ہے کہ وہ انتظامیہ کے دائرہ کار میں مداخلت کر رہی ہے۔ اگر اس کے پیچھے نیک ارادہ ہے تب بھی یہ حکومت کی کام کرنے کی آزادی پر قدغن ہے۔

پڑھیے: احتساب اب کیوں یاد آیا؟

اس کے علاوہ نواز شریف کی طرح عمران خان بھی جان جائیں گے جس میڈیا نے انہیں وہاں تک پہنچایا ہے، وہ ان کے خلاف بھی ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر کچھ حلقوں کو لگے کہ وہ تعاون نہیں کر رہے۔ بین الاقوامی سفارتکاری بھی نئے وزیرِ اعظم کو یہ یاد دلا سکتی ہے کہ اپنے مخالفین کو 'گدھا' کہنا ٹھیک نہیں ہے، جیسا کہ انہوں نے حال ہی میں کہا تھا۔

اوہ، اور میں ناخواندگی، انتہائی بلند شرحِ پیدائش، جہادی عسکریت پسندی، پانی و بجلی کی قلت، اور تباہ حال ریاستی تعلیمی نظام پر بات کرنا تو بھول ہی گیا۔ اس کے علاوہ عمران خان جان جائیں گے کہ جنہوں نے حقیقت میں انہیں وزیرِ اعظم بنایا ہے، وہ گوشت میں اپنا حصہ بھی ضرور طلب کریں گے۔

یک نکاتی کرپشن مخالف ایجنڈا رکھنے والے عمران خان کو جلد ہی اندازہ ہوجائے گا کہ دوسری ترجیحات بھی ان کی توجہ چاہتی ہیں۔

یہی حقیقت اور خواہش کے درمیان موجود کھلا تضاد ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 21 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں