عمران کے نئے پاکستان کی آمد آمد

26 جولائ 2018
عمران خان 2018 انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں— فوٹو: رائٹرز
عمران خان 2018 انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں— فوٹو: رائٹرز

ہم نئے پاکستان کے دہانے پر کھڑے ہیں جو عمران خان کی خواہشات میں سے ایک ہے۔ یہ ان کی چند خواہشات میں سے ایک ہے جہاں انہوں نے مشکل اتحادیوں کے بغیر حکومت کے قیام کی خواہش ظاہر کی جو سچ ثابت ہو گئی۔ لاہور سے مسلم لیگ ن کے حیران کن نتائج سامنے آنے کے بعد اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ چترال سے صادق آباد تک پاکستان کے معاملات ایک ہی طرح سے چلائیں جائیں گے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں پنجاب سے خیبرپختونخوا تک کا علاقہ جس سیاسی محاذ آرائی کا شکار رہا، اس کو دیکھتے ہوئے یہ ایک انتہائی شاندار کامیابی نظر آتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں کلین سوئپ کر رہی ہے۔ دوبارہ ابھر کر سامنے آنے والی عوامی نیشنل پارٹی کچھ خاص کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ جماعت اسلامی کے اشتراک سے جمعیت علمائے اسلام کی زیرقیادت متحدہ مجلس عمل کے چیلنج کو بھی یکسر مسترد کردیا گیا۔ ماہرین کا یہ جملہ کہ 'تحریک انصاف ملک کے شمال مغربی صوبے میں ہر جگہ ہے'، بدھ کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کے بعد ایک نئی معنی خیز شکل اختیار کر گیا ہے۔ یہ عوامی نیشنل پارٹی کے حامیوں کے لیے افسوسناک لمحہ ہے۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں بھاری نقصان اٹھانے والی اس جماعت کے لیے انتخابی نتائج زخموں پر نمک پاشی کی مانند ہیں۔ لیکن سیاست کی ظالمانہ دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

آپ چند نشستیں جیت جاتے ہیں لیکن پھر برے دنوں میں آپ زمین بوس ہو جاتے ہیں، کبھی کبھار ایک طویل مدت کے لیے۔ کبھی آپ انتخابات کے نتائج کو بخوشی قبول کرتے ہیں اور بعض اوقات ووٹوں کی گنتی آپ کو انتہائی مایوسی کا شکار کر دیتی ہے۔

اب لاہور جیسے اہم شہر میں سرگوشیاں جاری ہیں اور مسلم لیگ ن سے نالاں اور شکست پر خوش حلقے یہ کہتے دیکھے جا رہے ہیں کہ اب احتجاج کی باری مسلم لیگ ن کی ہے۔ مریم اورنگزیب ان مصدق ملک کے کان میں سرگوشی کر رہی تھیں جن کے چہرے پر پہلی مرتبہ عجیب و غرب انداز میں نہیں مسکرا رہے تھے۔

یہ مسلم لیگ ن کے افراد صدمے کی حالت میں ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ میڈیا ایک ایسے انتخابات میں 'بڑے پیمانے' پر دھاندلی کو رپورٹ کرے جس میں خصوصاً لاہور اور اس کے گردونواح کے اضلاع میں شریفوں کا غلبہ بری طرح کمزور ہوا ہے۔

ابتدائی نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن کی اسلام آباد اور راولپنڈی میں سیٹوں میں شدید کمی آئی ہے جہاں وہ تحریک انصاف اور گجرات میں اتحادیوں مسلم لیگ ق کے ہاتھوں ہار رہی ہے جبکہ فیصل آباد اور ملتان کے ساتھ جنوبی پنجاب کے اکثر اضلاع میں بھی وہ ممکنہ نتائج سے بہت پیچھے ہے جو ان کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے جس کے سبب یہ جماعت گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں سینئر رہنماؤں کی شاندار کارکردگی کا جشن تک نہیں منا سکے گی۔ ایک مجموعی تاثر یہ ہے کہ اسے اپنے مشکل ترین دور کا سامنا ہے اور یہ تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔

پنجاب میں حکومت بنانے کی دعویدار مسلم لیگ ن کو اگر چند جگہوں پر انتخابی نتائج میں کرشماتی آغاز مل جاتا ہے تو کیا شریف کیمپ اپنا بچاؤ کر سکے گا؟ اگر چند معصوم ن لیگ کے حلقوں میں اس خواہش کا اظہار بھی کرتے ہیں تو ان کی یہ آواز پارٹی کے اندر ہی سے اٹھنے والی احتجاج کی آوازوں میں دب کر رہ جائے گی۔

جیسا کہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے لیے میاں نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کرنے کی اپنی خواہش کے درمیان توازن قائم کرنا مشکل تھا، اب یقیناً یہ شہباز شریف کے لیے وقت ہے کہ وہ بھرپور قوت کے ساتھ انتخابی نتائج پر سوالات اٹھائیں۔

شہباز شریف کو اب جس پہاڑ کا سامنا ہے اس سے نمٹنے کے لیے انہیں اپنے قدامت پسند خول سے باہر آںے کی ضرورت ہو گی۔ ان کا پہلا فارمولا تو مفاہمت کے مقام تک پہنچنا تھا جو آپ جانتے ہیں کس کے ساتھ تھا، لیکن وہ ناکمای سے دوچار ہوا۔ انہیں پارٹی کو جیل سے نکالنے کی ذمے داری سونپی گئی۔

مسلم لیگ ن کے ساتھ کردار تبدیل ہونے کے بعد وزیر اعظم عمران خان ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھرپور وسائل کے حامل لیڈر کے طور پر ابھرنے کے لیے تیار ہیں جہاں وہ اپنے بل بوتے پر غیرضروری اتحادیوں کے بغیر حکومت بنا سکتے ہیں۔ انہیں خود کو یہ یقین دلاتے ہوئے حکومت کا آغاز کرنا ہو گا کہ جس طرح وہ دھاندلی کے خلاف گزشتہ پانچ سال تک مہم چلاتے رہے، اس کے برعکس موجودہ اپوزیشن میں سکت نہیں رہی یا انہیں وہ حمایت حاصل نہیں جو انہیں ایک احتجاجی مہم برداشت کرنے کے قابل بنا سکے۔ لیکن اب ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے انہیں عالمی سازشوں کا شور مچانے کے بجائے کچھ بہتر کرنا ہو گا۔ انہیں پاکستان میں عالمی مفادات کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔

کچھ اندازوں کے مطابق عمران خان قومی اسمبلی کی 100سے زائد نشستیں جیتیں گے۔ اگر تحریک انصاف 90 نشستیں بھی جیت لیتی ہے تو اس کی خواہش پوری ہو جائے گی اور انہیں دوسروں کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہو گی جو دوسرے انہیں پیش کرنے میں آگے آگے نظر آئیں گے تاکہ وہ چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے ملک کی قیادت کر سکیں۔ وہ 'آزاد' اراکین قومی اسمبلی کی مدد سے بھی ایسا کرسکتے ہیں البتہ اقتدار میں طوالت کے لیے انہیں پارلیمنٹ میں کسی طرح داخل ہو جانے والے قوم پرستوں اور اسلامی جماعتوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے کا مشورہ دیا جا سکتا ہے۔

تحریک انصاف کی کامیابی کے ساتھ ایک نئے عہد کا آغاز ہوا ہے۔ عمران کی جدوجہد سے ناصرف ایک جماعت کے غلبے کا اختتام ہوا ہے وہ ایک پورے نظام کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں جس کا اب تک فائدہ اٹھایا جاتا رہا ہے۔ ان کی کتاب میں اصل گنہگار پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن ہیں۔ اپنے چند موجود بیانات میں وہ یہ بات واضھ کر چکے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری کے ساتھ اتحادی حکومت بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے جسے پی ٹی آئی کے حامی ملک میں تمام تر خرابیوں کی جڑ سمجھتے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے میں کامیابی ہو جائے گی اور شاید جب تک آخری نتائج آئیں، وہ قومی اسمبلی میں اپنے مجموعی اعدادوشمار بھی بہتر کر لے۔ موجودہ حالات میں اگر تحریک انصاف کے لیے ایسے نتائج سامنے آتے ہیں جس میں انہیں اتحادی حخومت بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی تو یہ صورتحال بلاول بھٹو اور زرداری دونوں کے لیے اچھی ہو گی۔ پیپلز پارٹی کے نوجوان رہنما کو مثبت ردعمل ملا ہے اور یہ مثبر ردعمل پنجاب میں موجودگی سے سامنے آیا ہے۔

وہ اتحادی حکومت کا حصہ بننے کی کسی پیشکش سے دور رہ کر بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ وہ اپنی جماعت کی ایک علاقائی یا صوبائی جماعت کے طور پر موجودہ شناخت کے بجائے ایک نئی شناخت ڈھونڈنے پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں جہاں یہ جماعت ملک کے بقیہ حصوں میں ایک مہمان کی طرح محض چند سیٹیں ہی جیت سکی ہے۔ وہ جنوبی پنجاب میں تازہ آغاز کے ساتھ ایک نئے آغاز کی کوشش کر سکتے ہیں اور بلندی کی جانب سفر کر سکتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کو اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ اس عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ابھرنے والے اتحاد میں وہ کیا کردار ادا کرے گی۔ مسلم لیگ ن وہ واحد پارٹی نہیں جس نے دھاندلی کا شور مچایا ہے بلکہ دیگر بھی ہیں جنہیں اعدادوشمار پر اعتراض ہیں اور آںے والے دنوں میں دھاندلی کے خلاف ٹھنے والی یہ آوازیں بلند ہو سکتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو ہر حال میں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ اس فیصلہ کن موڑ پر وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کرے گی یا نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں