لکھاری مصنف ہیں۔
لکھاری مصنف ہیں۔

آج جب آپ یہ پڑھ رہے ہوں گے تو پہلے سے تیار شدہ ناشتے کے نتائج آپ کو کھلانے کے لیے دوبارہ گرم کیے جائیں گے۔ انہیں آہستہ آہستہ کھائیے گا، ہضم کرنے کے لیے آپ کے پاس مزید پانچ سال ہوں گے۔

آپ میں سے شاید کچھ کا معدہ اتنا مضبوط نہ ہو کہ پہلے سے چبائے گائے کھانے کو نگل سکے۔ شاید دوسروں کو اس میں مسئلہ نہ ہو۔ ان کے لیے سیاسی جوٹھا شاید پھر بھی جیل کے کھانے سے زیادہ قابلِ ترجیح ہو جسے نواز شریف نے خود کے لیے اور اپنی بیٹی مریم کے لیے چنا ہے۔

فوج کے ہاتھوں 1999ء میں اٹک قلعے میں اپنی پہلی قید کے دوران نواز شریف نے شکایت کی تھی کہ انہیں بوتل والا منرل واٹر فراہم نہیں کیا جا رہا۔ 20 سال بعد وہ اڈیالہ جیل میں پانی پینے سے انکاری ہیں یہاں تک کہ (کہا جا رہا ہے) اپنے گردوں کو نقصان پہنچنے کے باوجود بھی۔ ان کی تشویش قابلِ فہم طور پر اپنی بہبود کے بجائے اپنی بسترِ مرگ پر موجود اہلیہ اور اپنی پیاری بیٹی مریم کے لیے ہے۔

انہوں نے تو ایک اور بینظیر بھٹو، ایک دوسری آنگ سان سو چی بننے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ نواز شریف کا 2023ء کے انتخابات میں حصہ لینے کا امکان کم ہے، مریم نواز ایسا کرنے کا مکمل ارادہ رکھتی ہیں، چاہے انہیں اس کے لیے اپنے چچا شہباز شریف کی حمایت حاصل ہو یا نہ ہو۔

شہباز شریف (ہمیشہ وزیرِ اعلیٰ، وزیرِ اعظم کبھی نہیں) کے لیے اس انتخابات سے زیادہ سخت امتحان کبھی نہیں ہو سکتا تھا۔ ان کے پاس دو آپشن تھے، یا تو وہ سیاسی خودکشی کرتے ہوئے نواز شریف کے ساتھ جیل چلے جائیں (جیسا کہ انہوں نے 1999 میں سعودی عرب جلاوطنی اختیار کی تھی)؛ دوسرا، خود کو نواز شریف سے دور کر کے اپنے رشتے میں دراڑ ڈال لیں۔ ان نتائج سے معلوم ہوگا کہ آیا انہوں نے صحیح فیصلہ کیا یا دو غلط فیصلے کیے۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے ان انتخابات کو مونٹیسوری اسکول کی طرح استعمال کیا ہے جس میں انہوں نے اپنے سیدھے سادے بیٹے بلاول کو سیاست کے بنیادی اسباق حاصل کرنے کے لیے داخل کروایا۔ سونیا گاندھی، جنہوں نے اپنے بیٹے کو کٹھ پتلی کی طرح چلایا، اسی طرح زرداری بھی عوام میں اپنے بیٹے کے ساتھ مست و رقصاں نظر آتے ہیں مگر پارٹی کی باگیں اپنے بیٹے کے ساتھ مشترکہ طور پر اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں۔ بلاول کی تعلیم میں اگلا قدم قومی اسمبلی کے مڈل اسکول میں پانچ سال ہوں گے، جس کے بعد وہ وزیرِ اعظم بن کر گریجوئیٹ بنیں گے۔

اس دوران عمران خان جان چکے ہیں کہ سیاست ایک ٹیسٹ میچ نہیں جو پانچ دن میں کھیلا جائے، بلکہ یہ پانچ سال کا کھیل ہے۔ وہ ایک سیدھے بلّے کے ساتھ میدان میں اترے تھے۔ انہوں نے کلین بولڈ ہونے کا تجربہ حاصل کیا ہے، رن آؤٹ بھی ہوئے ہیں، اور سلپس کے درمیان کیچ آؤٹ بھی ہوئے ہیں۔ مگر ان کے یہ سمجھنے کے لیے کافی تھا کہ انہیں جیتنے کے لیے مانگے کے بلّے اور ایک آنکھ والے امپائر کی ضرورت تھی۔ اس صبح وہ جان جائیں گے کہ آیا وہ اپنی ورلڈ کپ ٹرافی کے ساتھ پرائم منسٹر کپ سجا سکتے ہیں یا نہیں۔

جن انتخابات کو کل رات ختم ہوجانا چاہیے تھا اب ان پر کتابوں کی کتابیں لکھی جائیں گی، مگر جنگ ابھی بھی تمام نہیں ہوئی ہے۔ جھڑپیں 2023 تک جاری رہیں گی۔ کچھ لوگ شاید تھیوڈور وائٹ کی کتاب 'دی میکنگ آف اے پریزیڈنٹ' کا پاکستانی ورژن بھی لکھیں، جو کہ 1960 سے 1980 کے درمیان ہونے والے تمام صدارتی انتخابات کی کہانی ہے۔ پاکستانی مصنفین ویسے "دن کا فائدہ اٹھائیں، گھڑی کا فائدہ اٹھائیں" پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔

مارگریٹ تھیچر جیسے تجربہ کار سیاستدانوں کے لیے تاریخ بھی اتنی ہی فوری ہوتی ہے جتنی کہ موجودہ گھڑی۔ اکتوبر 1984 میں آئرش ریپبلیکن آرمی کے ہاتھوں برائیٹن ہوٹل میں خودکش حملے میں بال بال بچیں، تو انہوں نے اپنے ناکام اختتام کو ان الفاظ میں سمویا: "یہ وہ دن نہیں تھا جو کہ مجھے دیکھنا چاہیے تھا۔" یہ نواز شریف کے لیے وہ سیاہ صبح ہے جو ان کی کردار کشی کے لاتعداد کوششوں کے باوجود نواز شریف کو نہیں دیکھنی چاہیے تھی۔

معقول پاکستانیوں کے لیے اگلے پانچ سالوں کے لیے اتنی توقع بہت ہوگی کہ جہاں بسیں بھلے سر کے اوپر نہ چلیں مگر وقت پر چلیں، جہاں بجلی صرف تھوڑی دیر کے لیے مہیا ہونے والی عیاشی نہیں، جہاں پانی کی سپلائی یقینی ہو، صرف عدالتی حکم پر دستیاب نہ ہو، جہاں روپیہ پھُسپھسے غبارے کی طرح نیچے نہ گر رہا ہو، اور جہاں انفرادی حقوق کو طاقتور افراد غصب نہ کریں۔

کیا قانون پسند پاکستانی شہریوں کے لیے اس سے زیادہ کسی تشویش کی بات ہو سکتی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی ملک کی "نمبر ون انٹیلیجینس ایجنسی" کے خلاف سڑک پر پڑے پتھروں کی طرح الزامات کی بارش کریں؟ یا اتوار کے روز ڈی جی آئی ایس پی آر کی جاری کردہ ٹوئیٹ جس میں انہوں نے سپریم کورٹ سے "ریاستی اداروں کے خلاف لگنے والے الزامات کی سچائی جاننے کے لیے انکوائیری" کی درخواست کی۔ یا چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے شکایت کنندہ جج کو یہ یقین دہانی کروانا کہ "انصاف کیا جائے گا"۔

کچھ سال قبل لیبر پارٹی کے داخلہ سیکریٹری اور بعد میں خارجہ سیکریٹری جیک اسٹرا نے اپنی پارٹی کو مشورہ دیا تھا: "سوال یہ نہیں کہ قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے، بلکہ یہ کہ کس قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے"۔

پاکستان میں قوانین کی کوئی کمی نہیں۔ ہمارے پاس گودام بھر کر قوانین موجود ہیں، مگر انہوں نے ناانصافی ختم کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔ کیا نئی پارلیمنٹ ان سالوں کو واپس لوٹا دے گی جو ٹڈیاں کھا چکی ہیں، یا پھر یہ نیا ٹڈی دَل ہوگا؟


یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں