لکھاری قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔
لکھاری قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔

بدھ کے روز جو کچھ ہوا وہ کس حد تک جمہوری تھا، اس حوالے سے تمام تر تلخیوں کے باوجود تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی مگر انتخابی مرحلے کے سب سے اہم عنصر، ڈیموس، یعنی عوام پر بھی غور کرنا چاہیے۔

عمران خان اور پی ٹی آئی کہیں گے کہ عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے، مرکزی دھارے کے دیگر تمام حریف کہیں گے کہ عوام کی آواز دبا دی گئی ہے۔ دونوں ہی مؤقف حقیقت میں جمہوریت کی موجودگی پر بڑھتی ہوئی بین الاقوامی بحث کی سطح کو بھی کھرچنے میں ناکام ہیں۔ ہم میں سے جو لوگ سماجی تبدیلیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں اس پر گہرا غور و خوض کرنا چاہیے کہ ہماری جمہوریت وسیع تر تناظر میں کیسی دکھائی دیتی ہے۔

سب سے پہلا تو یہ کہ پیسہ اور طاقت ہی وہ چیزیں ہیں جو اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ صرف پاکستان میں نہیں ہوتا کہ جمہوری طریقے اور ادارے سرمایہ داروں، عسکری اسٹیبلشمنٹ اور کارپوریٹ میڈیا کے ہاتھوں یرغمال ہوتے ہیں۔ عام لوگ مرکزی دھارے سے باہر موجود لوگوں کی متاثر کن مہم سے چاہے جتنے بھی قائل ہوجائیں، مگر وہ اکثر اسٹیٹس کو کے ساتھ رہنے کا انتخاب کرتے ہیں کیوں کہ ریاست اور مارکیٹ کی روز مرہ کی چکی میں پسنے سے بچنے کے لیے آپ کو ان کے ساتھ مل جل کر رہنا پڑتا ہے جو طاقت میں ہوتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ اس قاعدے میں کچھ قابلِ توجہ استثنیٰ موجود ہیں۔ بدھ کے روز شمالی اور جنوبی وزیرستان کے لوگوں نے بالترتیب علی وزیر اور محسن داوڑ کو قومی اسمبلی میں جانے کے لیے منتخب کیا۔ حالیہ وقتوں میں اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹیاں اور امیدوار ایسے ممالک میں بھی طاقت میں آئے ہیں جو متنوع ہیں۔ ان میں میکسیکو، اسپین اور نیپال شامل ہیں۔ ان استثنائی واقعات کی توجیہہ ان کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے والی عوامی تحریکیں ہیں جنہوں نے 'عوام کو' پیسے اور طاقت کا مقابلہ کرنے اور سماجی تبدیلیوں کا وعدہ کرنے والی ترقی پسند قوتوں کا سامنا کرنے پر قائل کیا۔

مختصراً کہیں تو پاکستان کے عوام نے بدھ کے روز فیصلہ دے دیا ہے اور انہوں نے یہ کہا ہے: ہم اسٹیٹس کو کو چیلنج کرنے پر تیار ہیں مگر ضروری شرط ایک ایسی سیاسی مہم ہے جو لسانی و قومی، صنفی اور دیگر تفریقوں سے بالاتر ہو کر ملازمت پیشہ لوگوں کو اکھٹا کرے۔ ایک ایسے پائیدار متبادل کی عدم موجودگی میں ہمیں مرکزی دھارے کے امیدواروں سے ہی انتخاب کرنا پڑا کیوں کہ ہمیں غیر منصفانہ اور غیر مساوی سیاسی نظام سے حقوق دلوانے کے لیے طاقتور ثالثوں کی ضرورت ہے۔

دوسرا یہ کہ ردِ عمل کی قوتیں خود کو عوام دوست پیش کر کے شور مچا رہی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح اس بات کا واضح اشارہ تھی کہ دائیں بازو کے عوامیت پسند اپنے تفریقی پیغامات کی تبلیغ اور قوم پرستی پر مبنی بھیڑ چال کو فروغ دینے کے لیے 'عوام میں' بڑھتی ہوئی جگہ حاصل کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی اور ٹرمپ بریگیڈ کے درمیان مماثلتوں کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے: پاکستانی ترقی پسندوں کو امریکا میں موجود اپنے کامریڈز سے کچھ سیکھنا چاہیے جنہوں نے ٹرمپ کی فتح کے بعد خود کو متاثر کن انداز میں متحرک کیا ہے۔

دائیں بازو کی نعرے بازی کا زیادہ عمومی اثر ووٹروں میں بڑھتی ہوئی وہ تنقیدی سوچ ہے جب ایک بار واضح ہوجاتا ہے کہ خود ساختہ مسیحا بھی پیسے اور طاقت کے لیے اتنے ہی بے تاب ہیں جنہیں نکال باہر کرنے کے وہ دعوے دار ہوتے ہیں۔

بدھ کے انتخابات سے قبل تک میں نے جتنے بھی عام ووٹروں سے بات کی وہ اس حوالے سے واضح تھے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کچھ بھی ہیں مگر 'باہر والے' نہیں۔ اسی طرح 'تبدیلی' کا وعدہ اب اور بھی زیادہ دور محسوس ہوتا ہے۔ امید ہے کہ یہ ہمیں دیر کے بجائے جلدی محسوس ہو جائے کہ تبدیلی کے حقیقی آپشن دستیاب ہیں، بھلے ہی وہ ابھی نشونما پانے کے مرحلے میں ہیں۔

تیسری بات یہ کہ وہ لوگ جو تبدیلی چاہتے ہیں، انہیں اپنا آپ دکھانا اور اپنی آواز میدان میں سنانی چاہیے۔ اس مں کوئی شک نہیں کہ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جس میں اپنے گھر بیٹھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے بھی سیاسی مراحل پر اثرانداز ہونا آسان ہے۔ پی ٹی آئی کی فتح کچھ حد تک اپنی سوشل میڈیا پر حاصل کی گئی حمایت کی وجہ سے بھی ہے، خاص طور وہ حمایت جو اسے عوام کے نوجوان طبقے میں حاصل ہے۔

ترقی پسند بھی سوشل میڈیا پر کافی نمایاں تھے اور انہوں نے متاثر کن انتخابی مہم چلائیں۔ مگر یہ اہم بات ہے کہ ان میں سے زیادہ تر مہم انٹرنیٹ پر حاصل حمایت کو ووٹوں میں بدلنے میں ناکام رہیں۔ جب فیض آباد دھرنا ہوا تھا تو میں نے اس ملک کے ترقی پسندوں کو لاحق مسئلے پر لکھا تھا۔ وہ مسئلہ یہ تھا کہ یہ لوگ سیاسی تنظیموں میں اپنے افراد نہیں بھیجتے، جبکہ دوسری جانب قدامت پسند کھلم کھلا خود کو ردِ عمل کے سیاسی 'متبادلوں' کے ساتھ وابستہ کر لیتے ہیں۔

بدھ کے روز خادم حسین رضوی کی تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے ملک بھر کے حلقوں سے دسیوں ہزار ووٹ حاصل کیے۔ جہاں اس کی بڑی وجہ خفیہ طاقتوں کی جانب سے اس جماعت کی حمایت ہے، وہیں ترقی پسندوں کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی رائے کو صرف سوشل میڈیا تک محدود کر کے خود پر کوئی احسان نہیں کر رہے۔

اپنی آواز سنانے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ ووٹ کے لیے باہر نکلا جائے، اور جن لوگوں نے بدھ کے روز یہ نہیں کیا، انہیں آنے والے دنوں میں اسٹیٹس کو کے خلاف ایک ترقی پسند متبادل بنانے کے لیے وقت اور توانائی لگانے کے لیے سوچنا چاہیے۔

مختصراً کہیں تو ہمیں ایک بار پھر سرمایہ دارانہ جمہوریت کے حقائق کی یاد دہانی کروا دی گئی ہے۔ وہ لوگ جو ایک حقیقی جمہوری، مصفانہ اور پائیدار سماجی نظام بنانا چاہتے ہیں، انہیں 'عوام' کو یہ یقین دلانے کے لیے سخت محنت کرنی پڑے گی کہ متبادل ممکن ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 27 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں