چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے دوائیاں نہیں ہیں جبکہ افسران عیاشیاں کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پنجاب پبلک سیکٹر کمپنیز سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی، اس دوران ڈائریکٹر جنرل قومی احتساب بیورو ( نیب ) لاہور اور چیف سیکریٹری پنجاب پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران پنجاب حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ 346 سرکاری افسران جو پبلک سیکٹر کمپنیوں میں گئے ان کی فہرست نیب کو دے دی ہے۔

مزید پڑھیں: نیب کا 56 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ

اس پر چیف جسٹس نے پبلک سیکٹر کمپنیوں میں نجی شعبے کے کام کرنے والے تمام افسران کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کل تمام افسران سپریم کورٹ پیش ہوں، اگر کوئی اپنا موقف دینا چاہتا ہے تو کل تک دے دے۔

دوران سماعت پیچیدہ پرفارما بنانے پر چیف جسٹس نے ڈی جی نیب لاہور پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ڈی جی صاحب آپ معاملےکو پیچیدہ کیوں کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم افسران کو دیے جانے والے سارے پیسے واپس لیں گے اور ڈیم فنڈ کے لیے جمع کرائیں گے، یہ عوام کے پیسے ہیں بندر بانٹ نہیں کرنے دے سکتے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ کیپٹن عثمان پنجاب حکومت سے ایک لاکھ 40 ہزار روپے لے رہے تھے لیکن پبلک سیکٹر کمپنی میں جا کر 14 لاکھ روپے لے رہے ہیں، ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے ادویات نہیں ہیں جبکہ افسران عیاشیاں کر رہے ہیں۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے پبلک سیکٹر کمپنیز میں 3 لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے سرکاری افسران کو کل ( 29 جولائی ) کو طلب کرلیا۔

خیال رہے کہ اس سے قبل پنجاب کی نگراں حکومت نے پبلک سیکٹر کمپنیز اور تمام دیگر سرکاری اداروں میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو مارکیٹ کی بنیاد پر دی جانے والی تنخواہیں معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے اس نئی پالیسی پر اطلاق یکم جولائی سے ہوگا، تاہم یہ پالیسی پبلک سیکٹر کمپنیوں اور پنجاب میں کام کرنے والے دیگر اداروں کے نجی شعبے کے کانٹریکٹ ملازمین پر لاگو نہیں ہوگی۔

خیال رہے کہ سرکاری ملازمین کو لاکھوں روپے تنخواہیں دینے کے معاملے پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ازخود نوٹس کے بعد صاف پانی کمپنی کی طرح 56 پبلک سیکٹر کمپنیاں سپریم کورٹ کی زیر نگرانی ہیں۔

اس معاملے پر اپریل میں ہونے والے سماعت میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے پبلک سیکٹر کمپنیز میں بطور سربراہ کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک ماہ میں اپنی اصل تنخواہ سے اوپر اور زیادہ وصول کرنے والی رقم حکومت کو واپس کریں، تاہم ابھی تک اس حکم کی تعمیل نہیں ہوئی۔

دوسری جانب قومی احتساب بیورو ( نیب ) ان کمپنیوں کے معاملات کی تحقیقات بھی کر رہا ہے کیونکہ عدالتوں میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کمپنیوں کو غیر قانونی طور پر قائم کیا گیا۔

تاہم اس غیر واضح صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے شہباز شریف کی قیادت میں اپنے آخری کابینہ کے اجلاس میں پبلک سیکٹر کمپنیوں کو قانونی احاطہ دینے کے لیے سابق پوسٹ فیکٹو کی منظوری دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: آڈیٹر جنرل کا 51 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے مالی معاملات پر تحفظات کا اظہار

اس تمام صورتحال کے بعد نگراں حکومت کی جانب سے اب جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں ہدایت کی گئی ہے کہ موجودہ مالی سال کے آغاز سے ہی تمام قسم کے پروگراموں، منصوبے کے الاؤنسز، تنخواہوں کے پیکیجز، مارکیٹ کی بنیاد پر تنخواہیں ختم کردی گئی ہیں اور سرکاری ملازمین کے لیے مارکیٹ کی بنیاد پر تنخواہوں سے متعلق تمام پچھلے نوٹیفکیشن اور حکم کو منسوخ کردیا گیا ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق پبلک سیکٹر کمپنیوں یا منصوبوں، بورڈ، خودمختار اداروں، کمیشنز، فنڈز، انتظامیہ، خصوصی ادارے، فاؤنڈیشن وغیر میں کام کرنے والے افسران کو اب ڈیپوٹیشن الاؤنس کے ساتھ اصل تنخواہوں کی ادائیگی کی جائے گی اور یہ الاؤنس 12 ہزار روپے ماہانی سے زیادہ نہیں ہوگا۔

نگراں حکومت کے نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ متعلقہ افسران اور حکام کو اس موضوع پر صوبائی حکومت کی موجودہ پالیسی کے تحت اعزازیہ دینے پر غور کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں