اسلام آباد: ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت میں تاریخی اضافے کے باوجود ملک کا پاور سیکٹر مایوس کن صورتحال سے دو چار ہے اور اسے استحکام اور سستی بجلی کی پیداوار جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نینشل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی انڈسٹری رپورٹ 2017 میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 17-2016 کے دوران 112 ارب روپے کے سرکلر قرض کا سامنا کرنا پڑا جس میں نقصان میں کمی کے ہدف کو پورا نہ کرنے میں 31 ارب اور وصولی کی مد میں 81 ارب روپے شامل ہیں۔

تاہم اسی دوران پیداواری صلاحیت میں اضافے اور ادائیگیوں میں اضافے سے صارفین کے لیے مجموعی بجلی ٹیرف میں اضافہ جاری رہے گا۔

مزید پڑھیں: ‘قومی خزانے پر بوجھ بننے والے پاور پلانٹس کو بند کیا جائے’

نیپرا کے مطابق نجی پاور کمپنیوں کے لیے پیداواری ادائیگیاں سال 16-2015 میں 280 ارب روپے رہیں، جو 17-2016 میں بڑھ کر 350 ارب روپے رہیں اور 17-2018 میں یہ مزید اضافے کے ساتھ 490 ارب روپے ہوگئی۔

اسی طرح فی یونٹ (کے ڈبلیو ایچ) کی پیداواری لاگت کی ادائیگی 16-2015 میں 3 روپے 40 پیسے رہی، جو 17-2016 میں 4 روپے 10 پیسے فی یونٹ اور 17-2018 میں یہ 5 روپے ہوگئی۔

پاور ریگولیٹر کی جانب سے یہ نیتجہ اخذ کیا گیا کہ موجودہ پالیسی اور پیداواری منصوبہ بندی کے باعث ملک میں آئندہ 5 سے 6 سال کے دوران بجلی کی اضافی پیداواری سامنے آئے گی۔

اس کے علاوہ گندے درآمد شدہ ایندھن پر انحصار کرنے کا معاملہ بھی کافی حد تک حل کیا گیا اور فرنس آئل پر کوئی نیا پاور پلانٹ نہیں لگایا گیا بلکہ صاف آر ایل این جی ایندھن کو متعارف کرایا گیا۔

اسی طرح وفاقی حکومت نے درآمد شدہ کوئلے کو پاور پلانٹ میں استعمال کرنے پر بھی رکاوٹ ڈالی، جس کے باعث 21-2020 تک تقریباً 12 ہزار میگا واٹ سے زائد کے پاور پلانٹس کی جانب سے درآمد شدہ آر ایل این جی کا استعمال متوقع ہے، لہٰذا اس تمام صورتحال کے باعث بجلی کے صارفین بین الاقوامی قیمتوں کی غیر یقینی صورتحال سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 18-2017 میں خسارے کی شرح میں ہدف سے زائد اضافہ

نیپرا کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 3 برسوں سے زائد سے شمسی توانائی اور ہوا کی بنیاد پر موجود ٹیکنالوجی کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی اس سے پیدا ہونے والی بجلی دیگر ٹیکنالوجی کی قیمتوں کے مقابلے میں کافی حیران کن تھی لیکن وزارت توانائی کی غیر واضح پالیسی کے باعث اس سے فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکا۔

اس کے علاوہ مختلف مسائل کے باعث چھوٹے ہائیڈرو پاور پلانٹس کی تنصیب بھی نہیں ہوسکی، یہ پلانٹس اپنی مضبوط ساخت اور سستی رقم کی وجہ سے 50 سال سے زائد عرصے تک استعمال کیے جاسکتے تھے اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسیز کے پاس نظام میں ان کی تنصیب کی مخالفت کا کوئی جواز بھی نہیں تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں