فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

میں بچپن میں خواب دیکھا کرتا تھا کہ ایک بدمست بیل میری جانب دوڑا چلا آ رہا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے جسم میں طاقت ختم ہو گئی ہے اور میں اپنے ناتواں ہاتھوں سے اسے روکنے کی کوشش کر رہا ہوں اور وہ میرا ہاتھ چبائے جا رہا ہے، اور یہ وہ وقت ہوتا تھا جب میری آنکھ کھل جاتی۔

میں کراچی کے جس محلے میں رہتا تھا وہاں تین گلیاں سیدوں کی اور چاروں طرف جولاہے آباد تھے۔ محلے کا پہلا ٹی وی ایک جولاہے کے یہاں آیا جہاں سارا محلہ ٹی وی دیکھنے اکھٹا ہو جاتا تھا۔

میرے نانا جو ڈاکٹر تھے، جولاہوں کی گلی میں رہتے تھے، سیدوں کی بیبیاں نانا کی چھت سے جولاہے کے صحن میں رکھے ہوئے ٹی وی پر پروگرام دیکھتی تھیں۔ گو سیدوں اور جولاہوں کے درمیان فرقوں کا تضاد تھا لیکن آپس میں بڑی بھائی چارگی تھی۔

کچھ ہی عرصے میں میں نے اپنی زندگی کا پہلا فوجی ٹرک بھی دیکھ لیا، لیکن اس میں موجود فوجی اور ان فوجیوں میں بڑا فرق تھا جو عاشورہ محرم کی مجالس سننے ملیر چھاؤنی سے ہمارے امام بارگاہ آتے تھے، اور بڑی شفیق مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں سبیل کا چندہ دیتے تھے۔

ٹرک میں موجود فوجی بہت غصے میں لگتے تھے، اور ہماری گلیوں میں اپنی سنگین لگی بندوقوں کے ساتھ گھومتے تھے، اور نہایت غصے سے ہمیں گھر تک محدود رہنے کے احکامات دیتے رہتے تھے۔

ہمارے برابر والے محلے میں ایک لڑکا رہتا تھا پپی، جس کا دماغ کمزور تھا۔ وہ سارا دن پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہاتھ میں جھانکڑ لیے پتنگوں کے پیچھے دوڑتا رہتا تھا۔ ایک دن کرفیو لگا تھا، لیکن پپی بچارے کو کیا پتہ کہ کرفیو کیا ہوتا ہے، وہ پتنگ لوٹنے گھر سے نکل آیا اور چوک پر کھڑے فوجی ٹرک نے اسے پکڑ لیا۔ وہ اسے ڈراتے دھمکاتے، پپی انھیں دھمکاتا کہ وہ اگر اسے ماریں گے تو وہ حلق میں انگلی ڈال کر ان پر الٹی کر دے گا۔

میں کڑی دھوپ میں پپی کو بری طرح پٹتے اپنی چھت سے دیکھتا رہا، وہ اپنی الٹی میں لت پت ہو چکا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے، اور محلے کے کسی شخص میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ جا کر ان فوجیوں کو یہ بتا دیتا کہ یہ غریب لڑکا پاگل ہے۔

میں نے اپنی زندگی کا سب سے پہلا خوف محسوس کیا جب میں اپنے اسکول کے ٹیچر کے پاس ٹیوشن پڑھنے برابر والے محلے جاتا تھا، وہاں راتوں رات ایک قلعہ نما مسجد تعمیر کر دی گئی تھی، یہ مسجد سیدوں اورجولاہوں کی مسجدوں سے بہت مختلف تھی۔

ایک دن جب میں اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں سے گزر رہا تھا تو وہاں بہت ساری گاڑیاں کھڑی تھیں، جن میں ناجانے کہاں سے لوگ بھر بھر کرلائے گئے تھے، اور باہر ہی سے آنے والے مولوی لاؤڈ اسپیکر پر سیدوں کو کافر قرار دے رہے تھے۔ یہ سن کر میرا رنگ سفید ہو گیا تھا۔

میرے ٹیچر جن کا نام تو سید احمد زیدی تھا لیکن تعلق اہلسنت سے تھا، پہلی بار نہایت متفکر نظر آ رہے تھے۔

میرے دوستوں نے بعد میں مجھے بتایا کہ مولوی رات بھر لوگوں کو اکساتے رہے لیکن جولاہوں نے سیدوں کی حفاظت کیلئے اپنے لوگوں کو سامنے کھڑا کر دیا تھا، اور وہ رات گزر گئی۔ اور وہ نادیدہ قوتیں جو اکثریتی فرقے کو اقلیتی فرقے پر حملہ کرا کر فرقہ ورانہ فساد برپا کرانا چاہتی تھیں نا کام ہو گئیں۔

اس واقعہ کے دو سال بعد میں نے دیکھا، ہمارے چوک اردو نگر پر پرچم کشائی ہو رہی ہے۔ لیکن یہ پرچم پاکستان کا نہیں کسی تنظیم کا ہے۔

چوک پر کھڑا ایک نوجوان نہایت جزباتی تقریر کر رہا تھا کہ اس جھنڈے کو کراچی یونیورسٹی میں جلایا گیا پھاڑا گیا، لیکن  اب اگر کسی نے اس جھنڈے کو گندی نظروں سے دیکھا تو اس کے جسم میں اتنے ہی سوراخ کر دیئے جائیں گے جتنے سوراخ ہمارے جھنڈے میں کیئے گئے تھے۔

میں سپیریئر سائنس کالج شاہ فیصل کالونی کے گراؤنڈ میں صبح آٹھ بجے این سی سی کی ٹریننگ کیلئے پہنچ چکا تھا کہ چاروں طرف کالا دھواں اٹھتا دکھائی دیا، ہمارے انسٹرکٹرز نے ہمیں فورا گھر جانے کےلیئے کہا، جب ہم اپنے دوست کے ساتھ ملیر پہنچے تو پورا ملیر اپنے گھر سے باہر آ چکا تھا اور ہر کوئی ہمیں گھور رہا تھا، کیونکہ ہم نے فوجی وردی پہنی ہوئی تھی۔

گھر پہنچ کر پتہ چلا رات میں قصبہ اور علیگڑھ کالونی میں حملہ ہوا تھا جس میں سینکڑوں لوگ ہلاک اور زخمی ہو گئے تھے۔

ہمارے گھر کے سامنے گراؤنڈ کے ساتھ لنڈا مارکیٹ کے دکانداروں کی جھگیاں تھیں، جس کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا تھا، ہزاروں کی تعداد میں لوگ زمین پر اورلاکھوں کی تعداد میں پتھر فضا میں نظر آ رہے تھے۔

اس دن میرے پھوپھی زاد بہن کے بیٹے، جومیرا دوست اور پڑوسی بھی تھا، کو گولی لگی تھی۔ اس دن رات ڈھلنے تک تک لنڈا مارکیٹ میں کاروبار کرنے والے سارے افراد مردہ پائے گئے، جن میں میرا وہ دوست بھی شامل تھا جس سے میں رنگ برنگی کوٹیاں خریدتا تھا۔

وہ قوتیں جو میرے گھر میں فرقہ ورانہ فسادات کرانے میں ناکام ہو گئی تھیں، لسانی فسادات کرانے میں کامیاب ہو چکی تھیں۔

نفرت کا وہ بیج جو تیس سال پہلے بویا گیا تھا آج تناور درخت بن چکا ہے۔

میں آج بھی خواب دیکھتا ہوں کہ ایک بدمست بیل میری جانب دوڑا چلا آتا ہے ۔۔۔۔۔ دوڑا چلا آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔


Khurram-abbas-blogs-80 خرم عباس ایک ڈرامہ نگار ہیں اور کراچی کی دنیا ان کا خاص موضوع ہے

تبصرے (3) بند ہیں

balouchah Jul 12, 2013 02:45pm
کمال لکھا ہے
faiz Jul 12, 2013 08:15pm
very well
شانزے Jul 12, 2013 09:25pm
مبارک ھو آپ نے جو خواب دیکھا تھا وھ اب پوری قوم کا خواب بن چکا ھے