لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

اس ضروری وقفے کے دوران جدید فلموں کے بہترین ولنز میں سے ایک کے الفاظ پر غور کریں۔ دی ڈارک نائٹ فلم میں جوکر کہتا ہے: ’تم جانتے ہو میں کون ہوں؟ میں گاڑیوں کے پیچھے بھاگتا کتا ہوں جسے پتہ نہیں کہ اگر اسے گاڑی مل گئی تو وہ اس کا کرے گا کیا۔ میں بس کردیتا ہوں۔‘

ثقافتی پابندیاں یہ اشارہ کرنے سے روکتی ہیں کہ یہاں ایسے کتے کون ہیں، مگر پیچھے تو بہت زیادہ بھاگا جا رہا ہے لیکن ان 2 چیزوں کے پیچھے بھاگنے سے 2 چیزیں پیدا ہوں گی: ایک حکومت اور ایک اپوزیشن، اور پھر اچھائی اور عظمت اور سب ٹھیک ہوجائے گا۔

چاہے حلال ہو یا حرام، مگر ساسیج بنانا صاف ستھرا کام نہیں اور یہ ٹھیک بھی ہے، تب تک جب تک آپ کو آخر میں وہی ملے جو آپ چاہتے ہیں۔ آنے والی حکومت اور اپوزیشن کی بے وقوفیوں کے درمیان واضح ہے کہ آپ اس وقت عمران ہی بننا پسند کریں گے۔

سمجھوتے سے عمران خان کو سیاسی طور پر نقصان نہیں پہنچتا۔ طویل عرصہ قبل انہیں باؤلنگ کی درست سمجھ آ گئی تھی کہ وہ پی ٹی آئی ہیں اور تبدیلی کے لیے سب کو انہی کی جانب دیکھنا چاہیے۔ یہ جاننا ضروری رہے گا کہ سسٹم پہلے ہی مطلق العنان جمہوریت کی جانب گامزن ہے۔ پارٹیاں یہاں نیچے سے اوپر کے بجائے اوپر سے نیچے چلتی ہیں۔

مزید پڑھیے: اتاترک سے دشمنی، جناح سے دوستی بھی؟

تو اگر آپ ٹی وی پر ہر وقت نظر آنے والے پارلیمینٹیرینز کے ناموں کے علاوہ 5 نام گنوا سکتے ہیں اور آپ کے پاس پیسہ اور خواہش ہے، تو آپ بھی حکومت سازی کے کھیل میں حصہ لے سکتے ہیں۔

یہ اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔

مگر مشکل تر کام نمبر حاصل کرنے کے بعد کچھ کر دکھانا ہے۔ مشکل ترین کام ان حاصل کردہ نمبروں کی حقیقت سے باہر نکلنا ہے۔

عمران خان یہاں سے وہی کریں گے جو وہ یہاں سے کریں گے۔ قابلِ پیشگوئی چیزوں کی پیشگوئی کرنے کا کام نجومیوں پر چھوڑ دیں۔ شاید وہ کامیاب ہوں گے، وہ یقینی طور پر ناکام ہوجائیں گے، ہم سب ابھی اسی کشتی پر سوار ہیں۔

مگر 2018ء کے پاس امیدواروں اور پارٹیوں کے لیے پہلے ہی ایسے کچھ نتائج موجود ہیں جو اگلے راؤنڈ میں پھر ہمارے سامنے ہوں گے۔ اور شاید اس سے بھی آگے کافی عرصے تک۔ مگر اس میں سے زیادہ تر چیزیں اچھی نہیں ہیں۔

تصور کریں کہ آپ ان انتخابات میں امیدوار تھے یا ایسے شخص تھے جو انتخابی پانیوں میں اپنے ٹخنے گیلے کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے۔

آپ کو کیا نظر آیا؟

سب سے پہلی چیز جو آپ نے سیکھی وہ یہ کہ صحیح پارٹی کا ٹکٹ پکڑنا ہے۔ 2 جگہیں ایسی ہیں جہاں اس حوالے سے کوئی شک نہیں: اندرونِ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور وسطی پنجاب میں مسلم لیگ (ن)۔ باقی سب جگہوں پر یہ صحیح وقت پر صحیح انتخابی ٹرین میں چڑھنے کا معاملہ ہے۔

جیتنے والی سائیڈ پر مٹھی بھر ہائی پروفائل الیکٹیبلز کی شکست زیادہ تر الیکٹیبلز کے نزدیک پریشان کن نہیں ہے: 2018ء نے ان کے لیے اتنی طویل عمر اور مناسبت ثابت کردی ہے جتنی کہ وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔

2018ء میں تحریک انصاف کے لیے جو ٹیم بنائی گئی وہ الیکٹیبلز کے وعدوں پر قائم ہے۔ سب سے پہلا بڑا ٹکڑا جو ٹوٹ کر الگ ہوا وہ جنوبی پنجاب میں تھا اور وہیں سے تیزی آئی۔ الیکٹیبلز نہیں تو جیت کا راستہ نہیں!

خان کے چاہنے والوں اور پی ٹی آئی کا جیت کے بعد سے جو ہلا گلا نظر آ رہا ہے وہ ایک اہم مسئلے کے اوپر صرف وقتی طور پر پردہ ڈال رہا ہے: وہ یہ کہ الیکٹیبلز آج کے انتخابی اکھاڑے میں اس پوری صدی کے کسی بھی وقت سے زیادہ اہم بن چکے ہیں۔ 2002ء میں آپ کو مشرف اور ان کے 2 ستاروں والے بدنام ساتھی تک براہِ راست لائن چاہیے ہوتی تھی، ووٹر تک نہیں۔

مزید پڑھیے: عمران خان کے اقتدار کو خطرہ ’کب‘ اور ’کیوں‘ ہوسکتا ہے؟

دوسری چیز جو شاید آپ نے موجودہ یا مستقبل کے امیدوار کے طور پر نوٹ کی ہو، وہ بے نام کھلاڑیوں کا تواتر سے جیتنا ہے۔ بے نام کھلاڑی الکٹیبل کا متضاد ہوتے ہیں: پہلے والے کو اپنی حمایت کے لیے ضرورت ہوتی ہے اگلے متوقع وزیرِ اعظم کی شہرت کی، جبکہ دوسرے والوں کا کام اپنے حلقے کو کسی بھی انتخاب میں درست پارٹی کے ساتھ جوڑنا ہوتا ہے۔

مگر بے نام کھلاڑیوں اور الیکٹیبلز، دونوں کو ہی کسی اور کے ساتھ سوار ہونے کی ضرورت پڑتی ہے۔

2013ء میں پنجاب میں، خاص طور پر صوبائی سطح پر مسلم لیگ (ن) کچھ نشستوں پر اگر بھوسہ بھرے جانور بھی بٹھا دیتی تو شاید وہ جیت جاتے۔ یہ نواز شریف کی طاقت تھی۔ اس دفعہ عمران خان کو شاید اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز کو پہچاننے میں کچھ وقت لگے گا۔ کوئی بات نہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ بے نام کھلاڑیوں کی جیت ممکنہ طور پر اس کے متضاد کام کرے گی جو کہ بظاہر لگتا ہے کہ ہوگا۔

کیوں کہ بظاہر بے نام کھلاڑیوں کے جیتنے سے ایسے لگتا ہے کہ انتخابی میدان سب کے لیے کھل گیا ہے۔ اگر ایک بے نام کھلاڑی جیت سکتا ہے اور کئی دیگر بھی زبردست دولت خرچ کیے بغیر جیت سکتے ہیں تو آپ، مستقبل کے امیدوار بھی جیت سکتے ہیں۔

مگر انتخابات میں اچھے خاصے بے نام کھلاڑیوں کی جیت سے امکان یہ ہے کہ پارٹی رہنماؤں کے اندر بدترین رجحانات مزید مضبوط ہوں گے۔ اگر وہ صرف آپ کی وجہ سے جیتے ہیں تو کیا آپ چاہیں گے وہ چپ رہنے اور صرف آپ کے اشاروں پر چلنے کے علاوہ اور کچھ کریں؟

بے نام کھلاڑیوں کی جیت انہیں پارلیمنٹ میں خواتین یا اقلیتوں کی مخصوص نشستوں پر آنے والوں جیسا بنا سکتی ہے: جمہوری نظام کا بظاہر اچھا رخ جسے پارٹی سربراہان آسانی سے ہتھیا کر ناکارہ بنا دیتے ہیں۔

مزید پڑھیے: اسلام آباد پر راج کرنے کیلئے تختِ لاہور کا سہارا ناگزیر

مگر سسٹم میں بے نام کھلاڑیوں اور الیکٹیبلز کا جیتتے رہنا واضح طور پر عمران خان کا مسئلہ نہیں ہے اور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اگر یہ مسئلہ ہوتا بھی تو ایسا نہیں ہے کہ عمران اس حوالے سے زیادہ کچھ کر پاتے۔

مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ عمران ان کے ہونے کے حقیقی مطلب سے بچ پائیں گے: یعنی الیکٹیبلز عمران کو ان جگہوں تک کھینچیں گے جہاں عمران نظر نہیں آنا چاہیں گے اور بے نام کھلاڑی ان کے لیے کچھ نہیں کریں گے کیوں کہ عمران کو ان کی ضرورت نہیں۔

ساسیج بنانا کوئی صاف ستھرا کام نہیں، مگر اس میں پڑنے والے اجزاء دیکھنا کافی دلچسپ کام ہے۔ عمران کو پارلیمنٹ میں مطلوبہ نمبر مل جائیں گے۔

مگر مشکل تر کام نمبر حاصل کرنے کے بعد کچھ کر دکھانا ہے۔ مشکل ترین کام ان حاصل کردہ نمبروں کی حقیقت سے باہر نکلنا ہے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 5 اگست 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

معظم Aug 06, 2018 05:53pm
آزاد امیدواروں سے رابطے یا اُن کے پیچھے بھاگنے کو گلی کے جانور سے تشبہ دینا ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ فقرہ ہے ۔ لکھاری ہر طرف سے مایوسی ہی دکھانا چاہ رہے ہیں ۔ ہر ممکن کے آخر میں یاس کی دیوار کھڑی کر کے پورے نظام کو وحشت زدہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مجموعی طور پر آرٹیکل پڑھ کر لکھاری کے چند مخصوص سیاستدانوں سے ذاتی عناد کا احساس ہوا