بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے 8 روز سے ڈھاکا کے مختلف علاقوں میں احتجاج کرنے والے طلبا پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو جائیں۔

آٹھ روز قبل ایک تیزرفتار بس کی زد میں آکر 2 طلبا کی ہلاکت کے بعد سے ہزاروں طلبا کا احتجاج دارالحکومت ڈھاکا کے مختلف علاقوں میں جاری ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق احتجاج شروع ہونے کے کچھ دیر بعد ہی شہر کے مختلف علاقوں میں پھیل گیا تھا جس کے بعد حکام نے ملک بھر میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل کردی۔

ہفتہ کے روز اس احتجاج نے خطرناک صورت اس وقت اختیارکرلی جب ڈھاکا کے جگاتلہ بس اسٹینڈ پر پولیس نے مظاہرین پر ربر کی گولیوں سے فائرنگ کرکے 100 سے زائد افراد کو زخمی کردیا تھا۔

مزید پڑھیں : بنگلہ دیش: نوجوانوں کی ہلاکت پر طلبہ کا احتجاج، 317 بسیں نذرآتش

امریکی سفارت خانے کے مطابق امریکی سفیر مارسیا برنیکٹ کی گاڑی پر بھی مسلح افراد نے حملہ کیا تاہم وہ جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوگئیں۔

خبر رساں ایجنسی کے مطابق پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی فائرنگ گزشتہ روز بھی جاری رہی جب مظاہرین حکمراں جماعت عوامی لیگ پارٹی کے دفترکی جانب بڑھ رہے تھے۔

حسینہ واجد نے تنبیہ کی کہ ایک تیسری جماعت احتجاج کے ذریعے تخریب کاری کرکے مظاہرین کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ’ اس لیے میں تمام والدین سے گزارش کرتی ہوں کہ اپنے بچوں کو گھروں تک محدود رکھیں ، جو کچھ وہ کرچکے ہیں کافی ہے‘

عینی شاہدین کے مطابق حکومتی حامیوں کی جانب سے حملہ کیا جانے کے بعد کچھ نوجوانوں کو اسپتال بھی لے جایا گیا تھا۔

حسینہ واجد کی دھمکی اس وقت سامنے آئی جب مظاہرین یہ نعرے لگارہے تھے کہ ’ ہمیں انصاف چاہیے ‘۔

پولیس نے یہ ماننے سے انکار کردیا کہ انہوں نے مظاہرین پر ربرکی گولیاں اور آنسو گیس برسائی، تاہم اسپتال انتظامیہ کا کہنا تھا کہ درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے کچھ زیادہ زخمی ہیں۔

عوامی لیگ نے اس بیان کو مسترد کردیا ہے کہ ان کے حکام نے طلبا پر حملہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ ہفتے کے روز ایک مشتعل ہجوم نے امریکی سفیر مارسیا برنی کیٹ کی گاڑی کا محاصرہ کرلیا تھا۔

ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ بدیع العالم نے بتایا کہ ’ جیسے ہی امریکی سفیر رات 11 بجے نکلیں اور اپنے گاڑی میں بیٹھ رہی تھیں کہ ایک مسلح گروہ نے ان کی گاڑی پر حملہ کردیا‘۔

امریکی سفارت خانے نے تصدیق کی ہے کہ گاڑی پر مسلح افراد کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا تاہم سفیر اور ان کی ٹیم محفوظ رہیں۔

بنگلہ دیش کے سب سے بڑے اخبار پروتھوم الو کے مطابق ہفتہ کو پولیس اور ِمظاہرین میں تصادم کے تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ سروس 24 گھنٹے کے لیے معطل رہی۔

سوشل میڈیا پر تبصرے جاری ہیں کہ بنگلہ دیشی عوام موبائل فون سے انٹرنیٹ نہیں چلاپارہے تاہم وائرلیس اور وائرڈ نیٹ ورک میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

بنگلہ دیش ٹیلی کمیونیکشنز ریگولیٹری کمیشن نے کہا کہ وہ اس حوالے سے اتوار کے بعد بات کریں گے۔

سینئر ٹیلی کام حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بنگلہ دیش ٹیلی کمیونیکشنز ریگولیٹری کمیشن نے حکومت کے کہنے پر انٹرینٹ کی رفتار کم کی ہے۔

حکومت کی جانب سے یہ اقدام طلبا کے موبائل فونز سے آن لائن اس تصادم کو پھیلائے جانے سے روکنے کی ایک کوشش ہے۔

حکمران جماعت کے کارکنوں کی جانب سے طلبا پر حملے کے تصاویر نے سوشل میڈیا پر غم و غصے کی لہر میں اضافہ کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : بنگلہ دیش : اپوزیشن رہنما سے متعلق عدالتی فیصلے سے قبل احتجاج پر پابندی

بنگلہ دیش کے ٹرانسپورٹ سیکٹر کو عام طور کرپٹ ، خطرناک اور لاپروا سمجھا جاتا ہے۔ جیسے ہی نوجوانوں کے بس کی زد میں آنے کی خبر سوشل میڈیا پر آئی حکومت کے خلاف احتجاج ایک تیز رفتار احتجاج کا آغاز ہوگیا تھا۔

حسینہ واجد سال 2009 سے بنگلہ دیش پر حکومت کررہی ہیں لیکن حالیہ چند ماہ میں مختلف احتجاج میں دہائی قبل سے جاری اس بوسیدہ حکمرانی کے نطام کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

کئی طافتور وزراء نے طلبا سے اپنی کلاسوں میں جانے کی درخواست کی ہے، اندازہ ہے کہ نوجوانوں کا حکومت مخالف غصہ اور احتجاج آئندہ سال ہونے والے الیکشن میں ایک خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔

لیکن ان کی درخواست کا بہت کم اثر دیکھنے میں آیا۔

ٹرانسپورٹ یونین سے گہرے تعلقات رکھنے والے وزیرشاہ جہاں خان کی جانب سے ایک غیر سنجیدہ بات نے گزشتہ ہفتے اس احتجاج کو بھڑکایا۔

انہوں نے سوال کیا تھا کہ ڈھاکا میں دو بچوں کے ایکسیڈنٹ پر ہنگامہ کیوں کیا جارہا ہے، کل بھارت میں ایک بس حادثے میں 33 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔

حادثے کے بعد جمعرات کو اسکول بند تھے کیونکہ حکام نے نے طلبا سے وعدہ کیا تھا کہ روڈ سیفٹی کے حوالے سے ان کے مطالبات کو سمجھا جائے گا۔


یہ خبر 5 اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں