سعودی عرب نے کینیڈین وزیر خارجہ کے متنازع بیان کے بعد کینیڈا کے سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے اوٹاوا کے ساتھ تمام تجارتی اور سرمایہ کاری کے امور معطل کردیئے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق کینیڈا کے وزیر خارجہ کی جانب سے ریاض پر زور دیا گیا کہ صنفی امیتاز کے خلاف فعال زیر حراست سماجی کارکنوں کو فوری رہا کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب: ریاست کے خلاف سرگرمیوں کے شبہے میں 17 افراد گرفتار

سعودی پریس ایجنسی کی جانب سے شائع پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ’کینیڈا کے سفیر کو 24 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ کینیڈا سے سعودی سفیر کو بھی واپس بلالیا گیا ہے‘۔

دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ ’یہ ان کا بنیادی حق ہے کہ وہ مزید اقدامات اٹھائیں‘۔

دوسری جانب سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے ٹوئٹ کیا کہ ’سعودی عرب اپنے داخلی امور میں کسی بھی نوعیت کی بیرونی مداخلت برداشت نہیں کرے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب کینیڈا میں اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے واپس بلا رہا ہے‘۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب: خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے مزید 4 کارکن گرفتار

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سعودی عرب کے داخلی امور میں کینیڈا کی مداخلت عالمی قوانین اور ضابطوں کے منافی ہے‘۔

سعودی عرب کی جانب سے مذکورہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب کینیڈا کے وزیر خارجہ اور کینیڈین ایمبیسی نے سعودی حکام پر زور دیا کہ سول سوسائٹی کے ارکان کو ’فوری طور پر رہا‘ کیا جائے۔

کینیڈین سفارتخانے نے جمعے کو سوشل میڈیا پر ٹوئٹ کیا کہ ’ہم سعودی حکام پر زور دیتے ہیں کہ پر امن طریقے سے تمام زیر حراست سماجی ارکان کو رہا کردیا جائے‘۔

دوسری جانب کینیڈا کے وزیر خارجہ نے سعودی عرب کے اقدام سے متعلق بات کرنے سے گریز کیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ہیومن رائٹس واچ نے سعودی حکام کی جانب سے صنفی امتیاز کے لیے فعال اور ایوارڈ یافتہ خاتون کارکن سم بدوی اور ان کی ساتھی خاتون کارکن نسیم الصدا کو گرفتار کیے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں عالم بچوں سمیت گرفتار

ایک اندازے کے مطابق رواں برس مئی کے وسط سے اب تک حکومت پر تنقید کرنے والے 15 کارکنان کو گرفتار کیا جاچکا ہے جس میں کچھ افراد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں، جس سے ان کے خلاف مقدمات کی شفافیت مشکوک ہوگئی ہے۔

واضح رہے کہ گرفتار ہونے والے ان افراد میں خواتین کے حقوق کی نمایاں کارکن ایڈووکیٹ حاتون الفسی بھی شامل ہیں، جنہیں جون میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ دنیا میں خواتین کی ڈرائیونگ پر آخری پابندی ختم ہونے کا جشن منانے کے لیے صحافیوں کو اپنی کار میں لے جانے کا منصوبہ بنا رہی تھیں۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نئی نسل سے تعلق رکھنے والے پہلے سعودی بادشاہ ہوں گے، جنہوں نے بڑے پیمانے پر سعودی عرب میں اصلاحات کا نفاذ کیا اور خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کا خاتمہ کیا جبکہ قدامت پسند سعودی معاشرے میں جدت کو متعارف کروانے کا منصوبہ بھی جاری ہے۔

تاہم تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ ان اصلاحات کا نفاذ سعودی سیاست میں نہیں ہوتا جہاں نظامِ بادشاہت کے تحت حکمرانوں کی مخالفت پر ابھی بھی پابندی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں