دیامر کے مقامی عمائدین نے اسکول حملوں میں ملوث 15 مبینہ سہولت کاروں کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا۔

دیامر کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) محمد اجمل کا کہنا تھا کہ مشتبہ افراد اسکولوں کو جلانے کے واقعے سمیت دیگر دہشت گردی کے واقعات میں مطلوب تھے۔

ایس پی کا کہنا تھا کہ مبینہ ملزمان نے دیامر کے پہاڑوں پر ہونے والے مشترکہ سرچ آپریشن کے دوران خود کو مقامی عمائدین اور پولیس کے حوالے کیا۔

مزید پڑھیں: دیامر میں شرپسندی سے سی پیک پر منفی اثرات مرتب

انہوں نے کہا کہ سرچ آپریشن کو مزید ملزمان کی گرفتاری تک جاری رکھا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملزمان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

یاد رہے کہ 3 اور 4 اگست کی درمیانی شب گلگت بلتستان میں نامعلوم شرپسندوں نے رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے قائم 12 درسگاہوں کو نذر آتش کردیا تھا، بعدِ ازاں 2 مزید اسکولوں کے خاکستر ہونے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں: دیامر میں اسکولوں کو جلانے کے واقعے کے بعد جج کی گاڑی پر حملہ

4 اگست کو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے دیامر اور چلاس میں دہشت گردوں کی جانب سے اسکولوں کو نذرِ آتش کرنے کے واقعے پرازخود نوٹس لیا تھا۔

گلگت بلتستان حکومت نے انتظامیہ کو خاکستر ہونے والے اسکولوں کو 15 روز میں تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔

دیامر میں دہشت گردوں کی جانب سے اسکولوں کو جلانے کے واقعے کے بعد سیشن جج ملک عنایت الرحمٰن کی گاڑی پر فائرنگ بھی کی گئی تاہم وہ اس حملے میں محوظ رہے۔

ڈان نیوز کے مطابق جج ملک عنایت الرحمٰن تانگیر میں شہید ہونے والے پولیس اہلکار کی نمازِ جنازہ کے لیے جارہے تھے کہ راستے میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں