اسلام آباد: پاکستان کے نومنتخب وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے حلف اٹھانے کے بعد دفتر خارجہ میں اپنے پہلے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اب دفتر خارجہ میں ہی بنے گی، نریندر مودی نے وزیراعظم عمران خان کو مذاکرات کا پیغام بھیجا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لوگوں کے لیے ٹھوس پیغام لے کر کابل کا دورہ کروں گا، ماضی کی روش سے ہٹ کر نئے سفر کا آغاز کرنا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانستان کے وزیرخارجہ سے ملاقات کروں گا اور ان کی قیادت کے سامنے ’پختہ ادارے اور سوچ‘ کو پیش کروں گا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک افغان تعلقات: دونوں ممالک الزام تراشی کا سلسلہ بند رکھنے پر آمادہ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما اور وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ ’افغانستان کے لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اور ہمیں اپنے خود مسائل کا حل نکلانا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اور بھارت کے ساتھ خارجہ امور بہت اہمیت رکھتے ہیں اور مستقبل قریب میں ان کے ساتھ تعاون میں بہتری لائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ’جہاں اعتماد کا فقدان ہوگا اس کا اعتراف کروں گا اور اس کی بحالی کے کام بھی جاری رکھوں گا‘۔

بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں

وزیر خارجہ نے بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی سے بات چیت شروع کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت سے تسلسل کےساتھ مذاکرات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے پریس بریفنگ کےدوران بتایا کہ ’گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے نام مبارک باد کا خط موصول ہوا ہے اور وہ پاکستان سے مذاکرات کے خواہاں ہیں'۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آنجہانی واجپائی کے ساتھ کشمیر ڈکلیئریشن تاریخ کا حصہ تھا اور پاکستان اور بھارت کو حقائق کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔

مزید پڑھیں: پاک-بھارت آبی تنازع: پاکستان اور عالمی بینک کے مذاکرات بے نتیجہ ختم

انہوں نے کہا کہ ’کشمیر ایک اہم مسئلہ ہے اور بھارت کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا‘۔

اس حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ بھارت اور افغانستان سے تعلق کے تناظر میں سابق وزرا خارجہ حنا ربانی کھر اور خواجہ آصف سے بھی مشاورت کروں گا۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کابینہ اجلاس کے بعد سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ سےملاقات کا عندیہ بھی دیا۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے دوٹوک کہا کہ ’ملکی خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کی خارجہ پالیسی اب دفتر خارجہ میں تشکیل پائے گی اور ہر ملک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات برابری کی سطح پر ہوں گے‘۔

امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات کے خواہش مند

وزیر خارجہ نے امریکا کےساتھ تعلقات کے تناظر میں کہا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین اعتماد کے فقدان کو دور کرنا چاہتا ہوں، مجھے امریکا کی ترجیحات کا اندازہ ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کے ساتھ ماضی میں کام کرنے کا موقع ملا اور ان کی ترجیحات اور تحفظات کا اندازہ بھی رہا اور انہی ترحجیات اور تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے دو ٹوک بات کروں گا کہ آپ کی ترجیحات سر آنکھوں پر لیکن ہماری ترجیحات، ضروریات اورقوم کی خواہشات بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاک امریکا تعلقات کو ڈالروں میں نہیں تولا جاسکتا‘

ان کا کہنا تھا کہ ’تعلقات دوطرفہ اور عزت و احترام کے ساتھ ہوتے ہیں، ملک بڑے اور چھوٹے بھی ہوتے ہیں لیکن قومی عزت وقار برابر ہوتا ہے، اس بات سے غافل نہیں ہوں کہ اعتماد کا فقدان دونوں اطراف ہے، اسے دور کرنا ہے‘۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’اعتماد کا فقدان دور کرنے کے لیے پہلے مجھے امریکا کا مؤقف سننا ہوگا اور پھر اپنا مؤقف پیش کروں گا‘۔

ایک سوال کے جواب میں وزیرخارجہ نے کہا کہ ’خارجہ پالیسی کی تشکیل سازی سے متعلق منفی مفروضات کو دفن کردیا جائے کیونکہ اب خارجہ پالیسی دفتر خارجہ میں تشکیل دی جائے گی لیکن اس ضمن میں متعلقہ ذمہ داران اور قومی سلامتی کے اداروں سے رائے ضرور طلب کی جائے گی اور دنیا بھر میں یہ طریقہ رائج ہے‘۔

مزید پڑھیں: پاکستان، امریکا کے ساتھ تعلقات جاری رکھے گا، تہمینہ جنجوعہ

شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ’سب سے پہلے پاکستان ہی میری پالیسی ہوگی‘۔

انہوں نے انگریز صحافی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’جب امریکا کو اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل ضرورت پڑتی ہے تو کیا وہ سی آئی اے، پینٹاگون سے رائے طلب نہیں کرتے؟ یقیناً ان کی رائے لی جاتی ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں