اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کی حکومت کو سرکاری شعبہ جات کے واجبات اور وصولیوں کی مد میں 19 کھرب روپے درکار ہوں گے۔

ایک سینئر حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو مختلف اقسام کے قرضوں کے حصول کے علاوہ گردشی قرضے ادا کرنے اور خسارے میں جانے والے اداروں کے واجبات اداکرنے کے لیے ایڈجسٹمنٹ کرنا ہوگی۔

حکومتی عہدیدار نے وضاحت کی کہ خسارے میں جانے والی کمپنیوں میں ادائیگی اور وصولیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے خلا کی وجہ سے واجبات بڑھ گئے ہیں ، جو انٹر کارپوریٹ سرکلر ڈیبٹ کی کلاسک مثال ہے، بڑھتے ہوئے گردشی قرضے کو روکنے کے لیے 600 سے 700 ارب روپے درکار ہوں گے۔

نومنتخب وزیر خزانہ اسد عمر نے پہلے ہی مالیاتی خسارے کو غیرحقیقی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ اصل اعداد و شمار عوام کے سامنے لائیں گے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اس سے اخراجات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

چند اہم واجبات اور ادائیگیوں سے متعلق حکام نے بتایا کہ صرف پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ 11 کھرب 50 ارب ہے جس میں 5 سو 66 ارب روپے کا حالیہ قرضہ بھی شامل ہے۔

جس میں 5 سو 70 ارب روپے پاور پروڈیوسز اور جنریشن کمپنیوں کو واجب الادا ہیں، ان میں واٹر اور پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی بھی شامل ہیں، یہ واجبات نیشنل ٹرانسمیشن اور ڈسپیچ کمپنی اور سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کو فراہم کی گئی بجلی کے ہیں، اس رقم میں ایک سو 10 ارب روپے گنجائش کی ادائیگی کے بھی شامل ہیں۔

5 سو 83 ارب روپے کا ایک اور گردشی قرضہ پاور ہولڈنگ لمیٹڈ کمپنی کو بھی ادا کرنا ہے ۔

ان واجبات کا ایک بڑا حصہ پاور ٹیرف کی جانب سے ادا کیا جاتا ہے لیکن اس میں ایک سو 55 ارب روپے کا قرضہ بھی شامل ہے جو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت نے ادا نہیں کیا تھا۔

مزید پڑھیں : ملک کے گردشی قرضوں میں 5 سو 66 ارب روپے اضافہ

مزید برآں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے ) کا گردشی قرضہ بھی 3 سو 80 ارب کے قریب ہے جو پچھلے پانچ سال میں ایک سو 23 فیصد بڑھ چکا ہے ، پہلے یہ قرضہ ایک سو 70 ارب روپے تھا۔

حکام نے بتایا کہ یہ پوری رقم فوری طور پر ادا نہیں کرنی لیکن ایئر لائن کو اپنے بڑھتے ہوئے قرضے کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے باقاعدہ ادائیگیوں کی ضمانت درکار ہوگی۔

قومی ایئرلائن کو برقرار رکھنے کے لیے اور اس کی بیلنس شیٹ کو ٹھیک رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر انتظامی تبدیلیاں لانی ہوں گی ۔

بڑے پیمانے پر خسارے میں جانے والے اداروں کی فہرست میں پاکستان اسٹیل ملز بھی شامل ہے جو جون 2015 سے گیس کی کمی کے باعث عملی طور پر بند ہے۔

2 سو 25 ارب روپے کے خسارے کے علاوہ اسٹیل مل کو گردشی قرضوں کے واجبات کی مد میں 2 سو 30 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔

اسٹیل مل کے بند ہونے سے اسٹیل اور لوہے کی درمدآت کی صورت میں ملک کو 10 ارب ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ کا نقصان بھی ہوا ہے ۔

پاکستان اسٹیت آئل (پی ایس او) ایک منافع بخش ادارہ ہے اور ملک کو سب سے زیادہ آمدنی پہنچاتا ہے، لیکن 15 اگست تک اس کی وصولیاں 3 سو 35 ارب روپے سے زائد تھیں، جن میں ایک سو 59 ارب روپے جنریشن کمپنیوں کی مد میں ، 77 ارب روپے حب پاور کمپنی اور 46 ارب روپے کوٹ ادو پاور کمپنی کو ادا کرنے ہیں۔

حکام نے بتایا کہ حکومت کو ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے لیے فنڈز کا انتظام کرنا ہوگا تاکہ وہ حب پاور کمپنی اور کوٹ ادو پاور کمپنی سمیت خود مختاور پاور پروڈیوسرز کو ادائیگیاں کرسکیں ۔

یہ بھی پڑھیں : ملک میں گردشی قرضے 922 ارب روپے سے تجاوز کرگئے

یہ فنڈز حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اہم بات یہ بھی ہے کہ 8 سو 20 ارب روپے کے سرکاری اور نجی شعبہ جات کے پاور ریکوری بلز بھی واجب الادا ہیں۔

7 اگست کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسد عمر نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر تنقید کی تھی کہ انہوں نے سیاسی مقاصد کے لیے ایک غیرحقیقی بجٹ پیش کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے بہت زیادہ قرضہ لیا تھا جس نے گزشتہ مالی سال کا خسارہ 4.1 فیصد کے بجائے 7.1 فیصد تک بڑھادیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال بہت خطرناک ہے جس سے نمٹنے کے لیے وقت درکار ہوگا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 20 اگست 2018 کو شائع ہوئی

تبصرے (2) بند ہیں

Talha Aug 20, 2018 05:54pm
filhaal hammaray mulk kiee sab sey badiee haqeeqat................
KHAN Aug 20, 2018 07:28pm
پاور سیکٹر کا اتنا قرضہ ہر سال ہوجاتا ہے، صرف اس لیے کہ ان پلانٹ لگانے والوں کو معلوم و نامعلوم وجوہ کی بنا پر فی یونٹ قیمت بہت ہی زیادہ لگانے کی کھلی اجازت دی گئی، اگر یہ پلانٹ مناسب قیمت پر بجلی فروخت کرتے تو اتنا قرضہ ہر سال جمع نہیں ہوتا اور عوام کو کم قیمت پر بجلی ملتی، اس کے لیے ملک میں سولر پینل بنانے کے پلانٹ لگائے جائے اور اللہ کی بہت بڑی نعمت سورج سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بیورو کریسی منظوری میں ہی 5 سال لگادے گی۔حالانکہ ایک ماہ میں تمام عمل مکمل کیا جاسکتا ہے اور ایک سال میں بڑے سے بڑا پلانٹ چالو ہوسکتا ہے۔ اس سے سولر پینل کی قیمت آدھی رہ جائے گی اور گرڈ کی بجلی پر انحصار کم ہوجائے گا، تاہم پاور پلانٹ والے اعتراضات کی بھرمار کردینگے۔ دوسری بات یا کہ ملک میں بغیر کسی وجہ کے سولر مصنوعات کے نرخ زیادہ ہے ، سولر پنکھے ہو یا بلب، واشنگ مشین ہو یا واٹر پمپ، معمولی سے وائنڈنگ کے فرق پر دگنی قیمت مانگی جاتی ہیں۔ سولر پنکھے کی 4000 سے 10000 تک قیمت بتائی جاتی ہے حالانکہ 1000 روپے کا مٹیریل استعمال ہوا ہوتا ہے۔ ان مصنوعات کے نرخ کم کرنے ہوگے جس کے لیے حکومت مراعات دے سکتی ہے۔