ہم اکثر اس بات کو کوئی اہمیت دیتے ہی نہیں کہ ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں، ہمارے شہر اور وہ تمام علاقے پُرامن ہیں جہاں جہاں ہم جاتے ہیں۔ یہ آزادی اور یہ امن فوج اور سیکیورٹی اداروں کی وجہ سے ممکن ہے جو 24 گھنٹے ہمارے ملک کو بیرونی اور داخلی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کا کردار ملکی دفاع اور سلامتی کے لیے سویلین حکومت کی رہنمائی میں کام کرنا ہے اور ان کے اہلکار ضرورت پڑنے پر فرض کی راہ میں بڑی قربانیاں دیتے ہیں۔

ہماری افواج کی جانب سے فراہم کی گئی دفاع کی خدمات کا سالانہ جشن قومی یومِ دفاع کے طور پر منایا جاتا ہے۔

یومِ دفاع، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اُس دن کی یاد میں منایا جاتا ہے جس دن ہماری افواج نے 1965ء میں ہندوستانی افواج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور اپنے ملک کا دفاع کیا تھا۔ اسے ہر سال 6 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔

دشمن نے 6 ستمبر 1965ء کو ہمارے ملک پر حملہ کیا۔ یہ مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی افواج کی پیش قدمی روکنے کے لیے ردِعمل تھا۔ دشمن نے مرکزی طور پر لاہور، سیالکوٹ اور سندھ کے صحرائی علاقوں پر حملہ کیا تھا۔ 22 ستمبر 1965ء تک جنگ جاری رہی جس کے بعد فریقین نے اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام جنگ بندی کو قبول کرلیا۔

پاک فضائیہ کا ایف 86 سیبر طیارہ جس نے 1965ء کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا
پاک فضائیہ کا ایف 86 سیبر طیارہ جس نے 1965ء کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا

ہماری افواج نے نہ صرف زیرِ حملہ علاقوں کا کامیابی سے دفاع کیا بلکہ ہزاروں شہریوں اور ان کے گھروں کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا۔ چنانچہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ملک کے ان تمام فوجی اہلکاروں کی عزت و تکریم کریں جنہوں نے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا تاکہ ہمارے رشتے دار اور ہمارے ہم وطن چَین کی نیند سو سکیں۔ یہ عزت و تکریم ان فوجی اہلکاروں کو بھی ملنی چاہیے جنہوں نے ہمارے شہداء کی حمایت کی، اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا، اور یہ کہانی سنانے کے لیے زندہ رہے۔

پڑھیے: جب میں جنگِ ستمبر کے دوران انڈیا میں پھنسا

ہمارے کئی شہید قومی ہیروز کو ان کی جرات اور بہادری کے لیے اعزازات دیے گئے۔ سب سے اونچا فوجی اعزاز نشانِ حیدر ہے جو میجر راجہ عزیز بھٹی کو 1965ء میں لاہور کے بیدیاں علاقے کے دفاع میں ان کے بے مثال کردار کی وجہ سے عطا کیا گیا تھا۔ وہ ان چند گنے چنے دیگر بہادر فوجی اہلکاروں میں سے ہیں جو مختلف جنگوں اور معرکوں میں شہید ہوئے اور یہ اعزاز حاصل کیا۔ انہوں نے پاکستان کے دفاع کے لیے سب سے بڑی قربانی یعنی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

یومِ دفاع ہمارے اس عزم کی تجدید کا بھی دن ہے کہ ہم ایک مضبوط قوم ہیں اور ہم کسی بھی غیر ملکی قوم سے ڈریں گے نہیں چاہے وہ جتنی بھی مضبوط کیوں نہ ہو۔ ہماری فوج اس کی اور دیگر چیزوں کی علامت ہے۔ ہماری فوج ہمارے عظیم ملک پاکستان کی شجاعت اور حربی تکنیکوں کا مظہر ہے اور یومِ دفاع یہ سب کچھ یاد رکھنے کا دن ہے تاکہ ہم مضبوط رہ سکیں اور اپنے ملک کے بچوں اور نوجوانوں کو درست پیغام دے سکیں۔

یومِ دفاع پر ملک بھر میں فوجی پریڈز اور ایونٹ منعقد کروائے جاتے ہیں۔ فوجی پریڈز میں تازہ ترین ٹیکنالوجیز کی نمائش کی جاتی ہے۔ کبھی کبھی نئے تیار شدہ اسلحے کی لانچ بھی اسی دن کی جاتی ہے۔ ان ایونٹس کا واضح مقصد ہمارے ہیروز کو یاد رکھنا اور ہماری فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا بھی اس مقصد کے حصول میں کردار ادا کرتے ہیں۔

پاک فضائیہ کے طیارے یومِ دفاع کے لیے ریہرسل کر رہے ہیں — فوٹو محمد عثمان
پاک فضائیہ کے طیارے یومِ دفاع کے لیے ریہرسل کر رہے ہیں — فوٹو محمد عثمان

ہم سب کو اپنی مضبوط افواج پر اور ملک کی زمینی سرحدوں کی حفاظت اور ملکی سلامتی یقینی بنانے میں ان کے آئینی کردار پر فخر کرنا چاہیے۔ ہم بھلے ہی معاشی مسائل کا شکار ہوں مگر ہم غیر ملکی خطرات سے محفوظ ہیں کیوں کہ دنیا میں کئی لوگوں کے مطابق ہماری افواج ایشیاء کی بہترین افواج میں سے ہیں۔ جب ہم اپنے ماضی کے جنگی ہیروز کو سلیوٹ کرتے ہیں تو ہم ان کی قربانیوں کی تکریم کرتے ہیں۔

مگر ہماری افواج نہ صرف جنگ کے دوران معرکوں میں حصہ لیتی ہیں بلکہ امن کے دور میں بھی قوم کی تعمیر میں حصہ ڈالتی ہیں۔ سیکیورٹی فورسز اکثر اوقات قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں امداد پہنچاتی ہیں اور سیلابوں اور زلزلوں کے دوران ریلیف کی خدمات سرانجام دیتی ہیں۔ فوج کے زیرِ انتظام چلنے والے کئی ادارے مثلاً اسکول، کالج، ہسپتال سویلینز کو بھی گراں قدر خدمات فراہم کرتے ہیں۔

پڑھیے: پاک بھارت معرکے میں زخمی عمرکوٹ کی کہانی

ہمارے قومی ہیروز کی تکریم کرنے کا کوئی مخصوص وقت نہیں ہے۔ کوئی بھی اسکول یا کمیونٹی فنکشن کسی بھی وقت منعقد کیا جاسکتا ہے تاکہ ان تمام باوردی خواتین و حضرات کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاسکے جنہوں نے ملکی سلامتی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ان کی اہمیت اور ان کی کوششوں کے بارے میں ہم سوشل میڈیا پر آگاہی بھی پھیلا سکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں اور دوستوں کے ساتھ گفتگو میں ہم فوج کی اہمیت اور اس کے آئینی کردار پر بھی بات کرسکتے ہیں۔

اگر اس سے ہمارے نوجوانوں میں فوج میں شامل ہوکر ملک کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوجائے تو یہ ایک عظیم نتیجہ ہوگا۔

یہ مضمون ڈان اخبار کے ینگ ورلڈ میگزین میں 1 ستمبر 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں