لاہور: قومی احتساب بیورو (نیب)، عدالتی کارروائی اور سیاستدانوں کے دھمکیوں سے خوفزدہ متعدد بیوروکریٹس اہم عہدے قبول کرنے میں گھبراہٹ کا شکار ہیں۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ایسے تمام سرکاری منصوبے جس میں کثیر رقم کا دخل ہے، بیروکریٹس ان منصوبوں سے متعلق امور پر فیصلہ کرنے میں سخت الجھن کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’اربوں کی کرپشن کرنے والوں پر پھول نچھاور کرنا ملک کی توہین ہے‘

اس حوالے سے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) کے اعلیٰ افسر نے بتایا کہ وہ تمام ایماندار ایڈمنسٹریٹو افسران جنہیں سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے دور میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا، وہ بھی موجودہ حکومت میں کوئی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہیں کیونکہ انہیں سابق حکومت کے سیاستدان تنقید کا نشانہ بنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’انسان غلطی کا پتلا ہے اور قصداً غلطی اور مجرمانہ غلطی میں واضح فرق ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے ہمارے معاملے میں دونوں ایک ہی ہے، میرا ریکارڈ بلکل صاف ہے لیکن میں کسی ایسے عہدے کو قبول نہیں کروں گا جس میں بہت بڑی رقم کا دخل ہوگا تاکہ کوئی مجھ پر لعن طعن نہ کر سکے‘۔

انہوں نے اپنے ایک دوست کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان کا دوست ایماندار بیوروکریٹ ہے جسے نگراں حکومت میں اہم عہدہ سونپا گیا لیکن اس عرصے میں اس نے کوئی فیصلہ نہیں کیا اور وہ تاحال عہدہ چھوڑ کر دوسرے نسبتاً غیر اہم عہدے کا خواہش مند ہے تاکہ انکوائری اور عوامی غصے سے بچا جا سکے۔

مزید پڑھیں: 24 ارب کی مبینہ کرپشن پر نیشنل ہائی وے کے سابق چیئرمین کےخلاف گھیرا تنگ

ان کا کہنا تھا کہ ’شہباز شریف کے دور میں ایک افسر صوبائی چیف ایگزیکٹو کے قریبی دوست تھے اور ان دنوں انہیں نیب انکوائری کا سامنا ہے‘۔

بیوروکریٹ افسر نے بتایا کہ وہ کرپشن ہونے پر احتساب کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس عمل کو پوری دھمکی سے پاک ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ محکموں پر بھاری فائلوں کا بوجھ ہے اور کسی افسر کا تمام فائلز پڑھ کر پیپرز پر دستخط کرنا آسان بات نہیں۔

انہوں نے وضاحت پیش کی کہ ’افسران عام طور پر فیصلوں سے متعلق امور پر اپنے سیکریٹریز یا ماتحت عملے پر اعتماد کرتے ہیں جس میں غلطی کی گنجائش ہوتی ہے، تمام دستاویزات کو غلطی سے پاک کرنے کے لیے بہت وقت درکار ہوتا ہے‘۔

سیکریٹری نے بتایا کہ ’موجودہ حالات کے تناظر میں کاغذات میں مالی نوعیت کی غلطی کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں، مجھے سوچ کر خوف آتا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: احد چیمیہ گرفتاری: ’پنجاب بیوروکریٹس مفاد عامہ کیلئے احتجاج چھوڑ دیں‘

ان کا کہنا تھا کہ ’صرف حکومت ہی غلطی کی نوعیت کو سمجھ سکتی ہے اور اس کے لیے داخلی احتساب کا عمل بھی واضح ہے‘۔

موجوہ قانون میں تحقیقاتی ادارے کسی ایک کو مجرم قرار دینے کے پابند ہیں لیکن الزامات لگا کر تمام افسران سے ثبوت طلب کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’برطانیہ میں ہر وزیر اپنی وزارت کے دوران ہونے والے فیصلے کا ذمہ دار ہے لیکن یہاں معاملہ قطعی مختلف ہے، سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی کابینہ کے لوگ اسمبلی یا اپنے گھروں میں سکون سے بیٹھے ہیں لیکن سروس کمیشنڈ افسران پریشانی جھیل رہے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ برطانوی ایڈمنسٹریٹو ذمہ داری کا تصور پاکستان میں بھی لاگو ہونا چاہیے تاکہ سیاستدانوں کی پالیسی کے مطابق افسران بغیر کسی خوف کے کام کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Rana ghulam mustafa Sep 03, 2018 12:05pm
They are not afraid of insolence, They fear from accountability!