اسلام آباد : فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے برآمد کنندگان اور گھریلو اشیاء کے سپلائرز کے ایک کھرب روپے سے زائد کے ٹیکس ریفنڈز روک لیے۔

سینئر ٹیکس عہدیدار کا کہنا ہے کہ 2013 سے اب تک کے زیر التوا کیسز کی تعداد 68 ہزار 2 سو 49 تک جا پہنچی ہے۔

یہ ٹیکس ریفنڈز پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دورحکومت میں ٹیکسٹائل کی کم ہوتی درآمدات کی وجہ سے ریونیو کی شرح کو بڑھانے کے لیے روکے گئے تھے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے برآمدات کی بحالی کا وعدہ کیا ہے لیکن ملک کے بعض اہم ٹیکسٹائل برآمدکنندگان کا کہنا ہے کہ زیر التوا ٹیکس ریفنڈز کو کم کیے بغیر برآمدات کو بحال نہیں کیا جاسکتا۔

کراچی کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کمیونٹی کے رہنما زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ ’ہم ابھی تک نئے وزیر تجارت اور خزانہ سے نہیں ملے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ٹیکس ریفنڈ کی عدم ادائیگیوں کی وجہ سے انڈسٹریز میں سرمایہ کاری کا فقدان ہے، ٹیکس ریفنڈ کے مسائل حل کیے بغیر درآمدات کو بڑھانے کا کوئی اور حل نہیں۔‘

اس معاملے نے سیاسی اہمیت اس وقت اختیار کی جب سابق وزیراعظم نواز شریف نے پاناما فیصلے کے بعد اسلام آباد سے لاہور مارچ شروع کرنے کے وقت اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بڑی تعداد میں سیلز ٹیکس ریفنڈز جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ اقدام سیاسی وفاداری خریدنے کے وسیع نقطہ نظر کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

سال 2013 سے ملکی برآمدات میں کمی آئی تھی تاہم حالیہ چند مہینوں میں اس میں بہتری آنا شروع ہوئی ہے، پاکستان تحریک انصاف نے وعدہ کیا ہے کہ انکم اور سیلز ٹیکس کی وصولیوں کے لیے تیز طریقہ کار متعارف کیا جائے گا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایف بی آر میں مجموعی سیلز ٹیکس ریفنڈز 14-2013 سے 19-2018 کے عرصے میں ایک لاکھ 2 ہزار 900 تک جاپہنچے ہیں۔

ان میں سے صرف 34 ہزار 6 سو 51 کے ٹیکس ریفنڈز ادا ہوئے ہیں۔

سالانہ وقفوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ 14-2013 سے 8 ارب 21 کروڑ 50 لاکھ کے 9 ہزار 6 سو 31 ٹیکس ریفنڈز زیر التوا تھے ، جو 15-2014 میں 12 ارب 24 کروڑ اور 16-2015 میں 18 ارب 34 کروڑ تک پہنچ گئے۔

2016-17 میں زیر التوا سیلز ٹیکس ریفنڈز 22 ارب 97 کروڑ 90 لاکھ تک پہنچ گئے تھے اور زیر التوا کیسز 12 ہزار 8 سو تھے۔ سال 2017-18 میں 14ہزار 1 سو 13 کیسز کے 36 ارب 90 کروڑ کے ٹیکس ریفنڈز ادا نہیں ہوئے تھے۔

رواں مالی سال کے ابتدائی 2 ماہ میں ہی 3 ارب 60 کروڑ اور 80 لاکھ روپے کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کیسز کی تعداد 1 ہزار 3 سو 63 تک پہنچ گئی ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 6 ستمبر 2018 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں