معیشت کی بہتری کیلئے حکومت کا وفاقی بجٹ میں تبدیلی کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 07 ستمبر 2018
اقتصادی مشاورتی کونسل کا پہلا اجلاس وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں وزیراعظم سیکریٹریٹ میں منعقد ہوا — فوٹو: گورنمنٹ آف پاکستان فیس بک پیج
اقتصادی مشاورتی کونسل کا پہلا اجلاس وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں وزیراعظم سیکریٹریٹ میں منعقد ہوا — فوٹو: گورنمنٹ آف پاکستان فیس بک پیج

اسلام آباد: اقتصادی مشاورتی کونسل (ای اے سی) میں شامل نجی سیکٹر سے تعلق رکھنے والے اراکین کے مطالبے پر وفاقی حکومت نے معیشت کی بہتری اور بجٹ برائے مالی سال 19-2018 کو حقیقت سے قریب تر بنانے کے لیے اس میں بڑی تبدیلیاں کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نو تشکیل شدہ اقتصادی مشاورتی کونسل کا پہلا اجلاس وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں 3 بین الاقوامی ماہرین اقتصادیات، ویب لنک میں آنے والی خرابی کے سبب شامل نہ ہوسکے۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں بتایا گیا کہ آمدنی اور اخراجات کے زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے بجٹ برائے سال 19-2018 میں کئی اہم تبدیلیاں کی جائیں گی، تاہم بیل آؤٹ پیکج کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے رجوع کرنے کے سلسلے میں کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ کی 'اقتصادی رابطہ کمیٹی' تشکیل

اجلاس میں قرضوں، مالیاتی مشکلات اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے حوالے سے 3 ورکنگ گروپ تشکیل دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا جو آئندہ ہفتے وزیر خزانہ اسد عمر سے علیحدہ، علیحدہ ملاقات کریں گے، بعد ازاں اس ضمن میں وزیر اعظم کو بھی آگاہ کیا جائے گا۔

اجلاس میں اکثریت نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ابتدائی 2 ماہ میں سیاسی نتائج کی پرواہ کیے بغیر سیاسی اور سماجی وسائل کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے سخت فیصلے کرے۔

اراکین کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے اہم فیصلے کرنے میں تاخیر کی تو صورتحال دن بدن مشکل ہوتی چلی جائے گی۔

کچھ اراکین کی جانب سے یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ بڑے پیمانے پر دیئے جانے والے ٹیکس استثنیٰ پر نظر ثانی کی جائے، خاص طور پر انکم ٹیکس استثنیٰ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے دی گئیں رعایتوں پر غور کیا جائے جس سے قومی خزانے میں 90 ارب روپے تک شامل ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ’آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ پارلیمان کے مشورے سے ہوگا‘

اس ضمن میں سابق حکومت کے مقبول اور امیروں کے مفاد میں کیے گئے فیصلوں کو ختم کرنے کے لیے سنجیدگی سے سخت اقدامات اٹھائے جائیں بجائے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے کے، کیونکہ اس سے کم آمدنی والے اور متوسط طبقے پر زیادہ بوجھ پڑے گا۔

اس سلسلے میں ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ٹیکس میں دی گئی رعایت واپس لینا انتہائی مشکل فیصلہ ہوگا، کیونکہ ایک دفعہ کوئی سہولت دے دی جائے تو اسے واپس لینا آسان نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ بڑے معاشی شعبہ جات خاص کر کپڑے کی صنعت کی بنیادی مصنوعات کے لیے سبسڈی دینے کے بجائے منافع بخش شعبہ جات کو رعایت فراہم کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی۔

یہ بھی پڑھیں: نئی حکومت کو گردشی قرضوں سے نمٹنے کیلئے قرضہ لینا پڑے گا

اس موقع پر زیادہ تر اراکین نے ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرنے کے لیے بجٹ کو مضبوط بنانے اور طویل مدتی ترقی کے لیے دور رس فیصلے کرنے پر زور دیا، تاکہ روزگار میں اضافہ، تعلیم کے شعبے میں بہتری، پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور حکومت کی کارکردگی میں بہتری لائی جاسکے۔

اجلاس میں وزیر ا عظم عمران خان نے یقین دہانی کروائی کہ اقتصادی مشاورتی کونسل کے اراکین کی جانب سے پیش کی جانے والی تجاویز پر سیاسی نتائج کی پرواہ کیے بغیر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا، کیونکہ یہ ملک و قوم کے دور رس اقتصادی مفاد میں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں