اسلام آباد: ایک سینئر حکومتی مشیر نے کہا ہے کہ انٹرنیشل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ کے حصول سے بچنے کے لیے اقتصادی مشیر لگژری گاڑیوں، اسمارٹ فونز اور چیز کی درآمدات پر پابندی لگانے پر غور کر رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقتصادی مشاورتی کونسل (ای اے سی) کے پہلے اجلاس میں فی الحال تو کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا، تاہم نئی قائم کردہ 'ای اے سی' نے ملک کے بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کو روکنے کے مختلف اقدامات پر تبادلہ خیال کیا اور آئی ایم ایف سے مزید قرض نہ لینے کے حکومتی عزم کا اظہار کیا۔

وزیر خزانہ اسد عمر کی زیر صدارت اس اجلاس میں یہ بات بھی زیر غور رہی کہ برآمدات کی کمی آور درآمدات میں ہوشربا اضافے سے پاکستانی معیشت میں ڈالر کی کمی ہے، جس کی وجہ سے روپے پر دباؤ ہے اور غیر ملکی زرمبادلہ کم ہو رہا ہے۔

مزید پڑھیں: معاشی صورتحال ابتر ہے، فوری 12 ارب ڈالر درکارہوں گے، اسد عمر

واضح رہے کہ اکثر مالیاتی ماہرین کو یہ توقع ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پاس اپنے بیل آؤٹ کے لیے جائے گا، جو 1980 سے لے کر اب تک کا 15واں بیل آؤٹ ہوگا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزیر اعظم عمران خان آئی ایم ایف پر انحصار کرنے پر تنقید کر چکے ہیں اور پاکستان تحریک اںصاف (پی ٹی آئی) کے حکام یہ خدشات ظاہر کرچکے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط حکومتی وعدوں کو متاثر کرسکتی ہیں۔

اس حوالے سے اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن اشفاق حسن خان نے بتایا کہ جمعرات کو منعقدہ اجلاس میں غیر روایتی تجاویز پیش کیں جس سے درآمدات کو کم کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اجلاس میں مجھے کوئی ایسا رکن نظر نہیں آیا جس نے یہ کہا ہو کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس جانا چاہیے کیونکہ ہمارے پاس کوئی اور حل نہیں، لہٰذا ہمیں کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کچھ نہ کرنا ناقابل قبول ہے‘۔

خیال رہے کہ ای اے سی اجلاس پر اسد عمر کی جانب سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، تاہم حال ہی میں سینیٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کو مالیاتی ضروریات کے لیے 9 ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور آئی ایم ایف کے پاس جانا آخری آپشن ہوگا۔

اشفاق حسن خان نے بتایا کہ اجلاس میں بنیادی اقدامات جیسے غیر ملکی چیز، کاریں، موبائل فونز اور پھلوں پر ایک سال کی طویل پابندی لگانے سے متعلق تبادلہ خیال ہوا اور بتایا گیا کہ ان اقدامات سے ہم 4 سے 5 ارب ڈالر تک بچا سکتے ہیں اور ہماری برآمدات کو بھی 2 ارب ڈالر تک بڑھایا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اقتصادی مشاورتی کونسل کے ایک اور رکن ڈاکٹر عمران رسول مستعفی

انہوں نے کہا کہ ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس ملک میں باہر سے کتنا چیز آرہا ہے اور مارکیٹ درآمدی چیز سے بھری ہوئی ہیں، ایسے وقت میں جب ملک کے پاس ڈالرز نہیں ہیں تو کیا ایسی چیز کی درآمدات کی ضرورت ہے؟'

واضح رہے کہ گزشتہ برس سابق حکومت نے چیز، ہائی ہارس پاور کاروں سمیت 240 درآمدی اشیا پر 50 فیصد تک ٹیرف بڑھایا تھا اور درجنوں نئی درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹیز عائد کی تھیں لیکن کوئی درآمدی پابندیاں نہیں لگائی گئی تھیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Kareem Sep 10, 2018 12:44pm
The unnecessary items import should be banned forthwith. The govt. departments and the people should only buy domestically produced cars. The super market and shopping center imports should be banned. Only local fashions should be promoted and all fashion designers should promote the use of local fabrics/products. Only the five star hotels should be allowed food imports for the consumption of foreigners as they generate foreign exchange. The food item imports should be banned. Everybody should consume local produce. The new government should take actions.
Ramay Sep 11, 2018 03:53pm
Well good decisions at EAC.But put double excise duty on all cigarettes packs and the luxurious items like cosmetic & perfumes imported, should be stopped or duble the duty taxes on these commodities.Luxury cars, vehicles, bicycles & motoebicks all be stopped for time being to cover the budget deficits.