لندن: برطانوی پارلیمنٹری ٹیم نے پاکستان کے سابق وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کو لندن سے بے دخل کرکے اسلام آباد کے حوالے کرنے سے متعلق آن لائن لابی پٹیشن مسترد کردی۔

پٹیشن میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’مفرور اسحٰق ڈار کا معاملہ برطانوی پارلیمنٹ میں اٹھایا جائے‘۔

واضح رہے کہ برطانیہ میں ایک ماہ قبل آن لائن پٹیشن تیار کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ ’مفرور سابق وزیر خزانہ پاکستان اسحٰق ڈار کو ملک واپس بھیجا جائے‘، اس پٹیشن پر اب تک 82 ہزار دستخط کیے جا چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسحٰق ڈار لندن میں گھومتے ہیں، عدالت بلائے تو اُن کے پٹھے کھنچ جاتے ہیں، چیف جسٹس

برطانوی پارلیمنٹری نظام کے تحت کوئی بھی شخص یا گروپ کسی بھی عوامی نوعیت کے مسئلے پر لابی پٹیشن شروع کرسکتا ہے اور اس پر ایک لاکھ دستخط حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو معاملہ برطانوی پارلیمنٹ میں زیر بحث آجاتا ہے۔

تاہم برطانوی پارلیمنٹ کی ایک ٹیم پٹیشن کا جائزہ لیتی ہے اور اگر پٹیشن میں توہین آمیز مواد موجود ہو تو اسے مسترد کرنے کا حق بھی رکھتی ہے۔

اس کے بعد ٹیم ان تمام لوگوں کو بذریعہ ای میل پٹیشن مسترد کرنے کی وجہ بھی بیان کرنے کی پابند ہے۔

پارلیمنٹری ٹیم نے ان تمام 80 ہزار سے زائد لوگوں کو ای میل کرکے بتایا کہ اسحٰق ڈار کو ملک بدر کرنے کی پٹیشن مسترد کی جا چکی ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا اسحٰق ڈار کا سفارتی پاسپورٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ

موصول ہونے والی ای میل میں کہا گیا کہ ’ہم اس پٹیشن کو مسترد کرتے ہیں جس کو آپ نے سپورٹ کیا‘۔

اس کی وضاحت میں انہوں نے کہا کہ ’مذکورہ پٹیشن میں معلومات خفیہ، توہین آمیز، جھوٹی اور رسوائی پر مبنی ہے اور جو ریفرنس پیش کیا گیا وہ برطانوی عدالت میں زیر سماعت ہے‘۔

ای میل میں کہا گیا کہ ’اس صورت میں، ہم آپ کی پٹیشن قبول نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں ٹھیک سے ادراک نہیں کہ آپ برطانوی حکومت اور پارلیمنٹ سے کیا چاہتے ہیں‘۔

اس میں مزید کہا گیا کہ ’ہمارا خیال ہے کہ آپ برطانوی حکومت سے اسحٰق ڈار کو واپس پاکستان بھیجنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، تاہم برطانیہ اور پاکستان کے درمیان مجرم کو اس کے ملک کے حوالے کرنے کا معاہدہ نہیں ہے، تاہم مجرمان کی حوالگی کے ایکٹ 2003 کے سیکشن 194 کے تحت خاص حالات میں مجرم کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسحٰق ڈار کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے 3 روز کی آخری مہلت

علاوہ ازیں حکومت پاکستان کو مجرم کے تبادلے کے لیے کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

ٹیم نے مزید بتایا کہ ’پٹیشن کو قوانین کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کیا گیا‘۔


یہ خبر 15 ستمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں