لکھاری اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر ہیں۔
لکھاری اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر ہیں۔

گزشتہ چند برسوں سے مغربی میڈیا اور اس کے ساتھ کئی ہندوستانی اور چند پاکستانی افراد سی پیک کے خلاف تنقید کی مہم میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس منصوبے کے تحت غیر ضروری سڑکیں تعمیر کی جا رہی ہیں، جن سے صرف چین کو سہولت فراہم ہوگی جبکہ پاکستان کو اس کا بہت ہی تھوڑا فائدہ پہنچے گا، یہ منصوبہ پاکستان پر بیرونی قرضے کا ایک بوجھ پیدا کردے گا، وغیرہ وغیرہ۔

اس مہم میں اس وقت تیزی آئی جب امریکی سیکریٹری دفاع جیمز میٹس نے اس منصوبے کے بارے میں کہا تھا کہ سی پیک روٹ ’متنازع زمین‘ (یعنی گلگت بلتستان) سے گزرے گا اور جب سابق امریکی سیکریٹری خارجہ ریکس ٹلرسن نے چین کے بیلٹ اور روڈ منصوبے کے مالیاتی تفصیلات پر سوال اٹھایا۔ سی پیک کو لے کر امریکی مخالفت جولائی میں اس وقت ثابت ہوگئی جب موجودہ امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے مالیاتی پروگرام کو چینی ’بانڈ ہولڈرز‘ اور بینک کی ادائگیوں کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

امریکی مؤقف کا مطلب وسیع پیمانے میں چین کے ساتھ اسٹریٹجک محاذ آرائی (تجارت کا پھیلاؤ، ٹیکنالوجی، جنوبی چینی سمندر) کے ایک حصے اور اس کے ساتھ پاکستان کو افغانستان پر امریکی مطالبات پر پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے دباؤ کے ایک اضافی نکتے کے طور پر اخذ کیا گیا۔

سیکریٹری خارجہ کے مکالمات نے پاکستان کی معیشت کے استحکام، بالخصوص اس کے بیرونی عدم توازن کے لیے فی الفور ضروری آئی ایم ایف کا رخ کرنے کی حکمت پر نئی نویلی حکومت کے اندر بے یقینی مزید بڑھ گئی۔ ایک انٹرویو کے دوران وزیرِ خزانہ اسد عمر نے کہا تھا کہ ’اگر ہم آئی ایم ایف کا رخ نہیں کرتے ہیں‘ تو اس کے پیچھے وجہ متوقع ‘اقتصادی دشواری‘ نہیں ہوگی بلکہ ’غیر اقتصادیُ اور ’قومی سلامتی‘ سے متعلق معاملات ہوں گے۔

پڑھیے: ’بھارت! مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرو!‘

انتخابات سے قبل، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے سی پیک کے چند منصوبوں پر نظرثانی اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ معاشرتی مقاصد کو ترجیحات میں شامل کرنے کی ضرورت پر بات کی تھی۔ چین کو فطری طور پر یہ فکر لاحق ہوگئی کہ کہیں ایک طرف سے نئی حکومت کی جانب سے نظرثانی کی خواہش اور دوسری طرف سے مغربی میڈیا کے حملوں کی وجہ سی پیک منصوبہ جو کہ صدر زی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو پٹری سے نہ اترجائے۔

چینی وزیرِ خارجہ کے حالیہ دورے اور نئی پاکستانی حکومت کے ساتھ بات چیت کے ایجنڈے میں سی پیک سرِفہرست معاملہ تھا۔ سی پیک پر پاکستان کے مؤقف کے حوالے سے ہر قسم کے شک و شبہات وزیر اعظم، وزیرِ خارجہ اور چیف آف آرمی اسٹاف کی جانب سے چینی وزیرِ خارجہ کو نجی و عوامی سطح پر کروائی گئی یقین دہانی کے ساتھ ہی دفن ہوگئے۔

مگر مغربی میڈیا نے اپنی مہم جوں کی توں جاری رکھی ہوئی ہے۔ دی فنانشل ٹائمز نے ’پاکستان دی تھنکس اٹس رول ان زی بیلٹ اینڈ روڈ پلان‘ (‘Pakistan rethinks its role in Xi’s Belt and Road plan’) کے عنوان کے ساتھ ایک مضمون شائع کیا۔ یہ مضمون چینی وزیرِ خارجہ کے دورے کے ایک دن بعد شائع ہوا تھا۔ مضمون میں پاکستان کے تجارتی مشیر کے بیان کو غلط انداز میں پیش کیا گیا تھا کہ چند سی پیک معاہدوں کے ‘نقصانات‘ کے بارے میں خدشہ لاحق ہے اور پاکستان ان پر ’دوبارہ گفت و شنید‘ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ وزارتِ تجارت نے فوری طور پر اس بات کی سخت الفاظ میں تردید جاری کی اور کہا کہ سی پیک کی مستقبل کی سمت پر پاکستان اور چین کے درمیان ’مکمل اتفاقِ رائے‘ پایا جاتا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی حکومت سی پیک کے لیے پُرعزم ہے۔

حتٰی کہ اس کے بعد بھی وال اسٹریٹ جرنل نے ایک مضمون شائع کیا جس میں دعوی کیا گیا کہ پاکستان سی پیک کے مقاصد میں تبدیلی کے لیے چین پر ’زور‘ دے رہا ہے ’تاکہ غربت میں کمی لانے کے لیے منصوبے اور صنعتیں تعمیر کی جاسکیں‘

حالانکہ سی پیک میں شامل منصوبے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ طے ہوئے تھے مگر چین نے مسلسل اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ معاشرتی انفرا اسٹرکچرز اور غربت میں کمی لانے کے منصوبوں کے لیے نئی حکومت کی ترجیحات کو شامل کرنے کو تیار ہے۔ یہاں تک کہ اس مقصد اور دیگر ایڈجسٹمنٹس کے لیے ایک دن قبل پاکستان کی وزارت برائے منصوبہ بندی اور چین کے قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن کے سربراہ کے درمیان ایک معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے وزیرِ اطلاعات نے پریس کو بتایا کہ امریکی سیکریٹری خارجہ نے اسلام آباد میں بات چیت کے دوران یہ یقین دلایا ہے کہ امریکا پاکستان کے لیے آئی ایم ایف مالیاتی پروگرام کو نہیں روکے گا۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ چینی قرضے کی ادائیگی پر امریکی اعتراضات ختم ہوچکے ہیں۔

انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جو واضح طور پر وال اسٹریٹ جنرل کے تعاون سے پیش کی گئی ہے۔ اس میں پاکستان اور سی پیک کو چین اور امریکا کے درمیان اسٹریٹجک مقابلے کے مرکزی نکتے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ یہ کہنا بالکل بھی غلط نہیں ہوگا کہ مغربی میڈیا شاید ’خود کو بادشاہ سے بھی زیادہ شاہی‘ سمجھتا ہے۔ مقابلے کا مرکز ہونے سے زیادہ پاکستان اور افغانستان شاید ایک ایسا خطہ ہے جہاں امریکا اور چین مقابلے سے زیادہ تعاون کرسکتے ہیں۔

پڑھیے: امریکی دھونس اور دھمکی کا توڑ کیا ہے؟

امریکا کے پاس چین اور سی پیک کی حمایت کرنے کے کئی تدبیری اور اسٹریٹجک وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ، امریکا کو افغانستان میں سیاسی بحالی کو ممکن بنانے کے لیے چین کی حمایت درکار ہے۔ امریکا اور چین دونوں ہی ایک سمت میں پاک افغان تعلقات بہتر بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ چین افغان طالبان کے ساتھ بھی قریبی روابط رکھتا ہے۔ وہ بھی امریکا کی طرح افغانستان میں ابھرتی دہشتگردی کو ختم کرنے کی خواہش رکھتا ہے اور یہ سیاسی بحالی میں ایران، پاکستان حتیٰ کہ روس کی جانب سے ہونے سے والی کسی قسم کے خلل انگیزی کو کم کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔

دوسری وجہ، افغانستان تک سی پیک کی وسعت سے یہ وسطی ایشیا، چین اور اس سے بھی آگے تک ’جُڑ‘ جائے گا اور ترقی اور استحکام پیدا کرنے میں مدد فراہم ہوگی۔ مزید براں، اگرچہ انڈیا (بالآخر) سی پیک میں شامل ہوجاتا ہے، تو اسے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی مل جائے گی (جس کی پاکستان نے شدید انداز میں اب تک مزاحمت کی ہے)۔ دونوں مقاصد جنوبی ایشیا کے لیے امریکی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ پاکستان کی نئی حکومت کی جانب سے سی پیک کے لیے عزم کو دیکھتے ہوئے چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے نمایاں طور پر کہا کہ سی پیک کی تعمیر میں ’تیسرے فریق کی حصہ داری کو شامل کیا جاسکتا ہے، جس سے پورے خطے کو فائدہ ہوگا‘۔

تیسری وجہ، سی پیک پاکستانی معیشت کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔ بلاشبہ امریکا افغانستان کے معاملے پر اپنی مرضی چلانے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالے گا۔ امریکا جھکنے کے لیے پاکستان پر زور تو ڈال سکتا ہے مگر کمر توڑنے کے لیے نہیں۔ کیونکہ ایک حتمی تجزیے کے مطابق، ایک ’ناکام‘ نیوکلیئر پاکستان، امریکا یا چین کے وسیع تناظر میں کسی صورت اچھا نہیں۔ چین نے پاکستان کے اقتصادی استحکام کی ذمہ داری قبول کی ہے تو امریکا کے لیے یہ کوئی بُرا سودا نہیں۔

مذکورہ باتیں شاید آج افغانستان سے شکست کھانے کی تکلیف سے دوچار انتقام خواہ امریکی جنرلز، انٹیلجنس آپریٹویز اور نظریہ ساز کو قبول نہ کریں۔ انہیں امریکا کی خارجہ پالیسی کے ماہرین ہی بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ اوباما انتظامیہ نے سی پیک کی حمایت کا اظہار کیا تھا۔

آگے چل کر سی پیک کی بڑی مخالفت شاویانہ (chauvinistic) ہندوستانی حکومت کی طرف ابھر کر سامنے آئے گی جو کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کے لیے پاکستانی حمایت کو باز رکھنے کے لیے بلوچستان میں دہشتگردی کو فروغ دینے اور گلگت بلتستان میں حالات بگاڑنے کو ایک معقول حکمت عملی کے طور پر دیکھتی ہے۔ مگر پورے ایشیا کے مرکزی علاقوں کے آپس میں اسٹریٹجک لحاظ سے صف بند ہونے والی شاندار تبدیلیوں اور پورے خطے میں معاشی اعتبار سے حالات کی بہتری کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت شاید اپنے پیر پر خود کلہاڑی مار رہا ہے۔

یہ مضمون 16 ستمبر 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

KhAlid Oct 07, 2018 06:37pm
Excellent analysis