ایران نے فوجی پریڈ پر حملے کی ذمہ داری امریکی حمایتی خلیج ریاستوں پر عائد کردی۔

واضح رہے کہ جنوب مغربی ایران میں فوجی پریڈ پر حملے میں پاسداران انقلاب کے 8 گارڈز سمیت 24 افراد جاں بحق اور 20 افراد زخمی ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ایران میں فوجی پریڈ پر حملہ

ایران کے شہر اہواز میں 1980 میں عراق کے ساتھ جنگ کو 38 سال مکمل ہونے کے حوالے سے فوجی پریڈ جاری تھی، جس میں دہشت گردوں کے گروپ نے حملہ کر دیا۔

بی بی سی پر شائع رپورٹ کے مطابق ایران کے روحانی رہنما آیت اللہ خامنہ ای نے الزام عائد کیا کہ امریکا کی کٹھ پتلی ریاستیں ایران میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں۔

دوسری جانب ایرانی صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک روانہ ہونے سے قبل میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اہواز حملے کے ذمہ دار کون ہیں۔

انہوں نے امریکا کو ’غنڈہ‘ کہتے ہوئے کہا کہ بعض خلیجی ریاستوں کی مدد سے امریکا ایران میں امن و امان کی صورتحال خراب کرانا چاہتا ہے۔

حسن روحانی کا کہنا تھا کہ ہم اہواز حملے کے ذمہ داروں کو نہیں چھوڑیں گے، انہوں نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک خلیجی ملک نے حملہ آوروں کی مالی, سیاسی مدد کی اور انہیں ہتھیار فراہم کیے۔

خیال رہے کہ فوجی پریڈ پر حملے کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) اور حکومت مخالف عرب گروپ اہواز نیشنل ریزسسٹینس نے قبول کی۔

مزیدپڑھیں: ایران: آیت اللہ خمینی مزار پر حملے کے جرم میں 8 افراد کو پھانسی

تاہم دونوں گروپوں کی جانب سے حملے میں ملوث ہونے کے شواہد پیش نہیں کیے گئے۔

اس سے قبل وزیر خارجہ جاوید ظریف نے الزام لگایا تھا کہ دہشت گردوں کو بیرونی معاونت حاصل تھی اور ایران میں امریکی اسپانسر دہشت گردوں کا احتساب کرےگا۔

ایران کے ریاستی میڈیا نے کہا تھا کہ ایران نے برطانیہ، ہالینڈ اور ڈنمارک کے سفیروں کو سمن جاری کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ان کے ممالک ایران مخالف گروپوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔

وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا کہ ان گروہوں نے یورپ میں حملے نہیں کیے اس لیے انہیں یورپی یونین نے کالعدم قرار نہیں دیا، یہ یقین ناقابل قبول بات ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایرانی پارلیمنٹ میں فائرنگ، خمینی کے مزار پر خودکش حملہ،12ہلاک

واضح رہے کہ اس سے قبل ایران نے سعودی عرب پر الزام لگایا تھا کہ وہ ایران میں عرب اقلیت علیحدگی پسندوں شرپسندوں کی حمایت کررہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں