پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی کا کہنا ہے کہ ’تاثر مل رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو کمزور کرنا چاہتی ہے‘۔

سینیٹ اجلاس کے دوران سینیٹر رضا ربانی نے حکومت کی معاشی صورتحال سے نمٹنے میں ناقص حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

سعودی عرب کو سی پیک میں شامل کرنے پر چین کو اعتماد میں لینے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’لگتا ہے موجودہ حکومت شاید سی پیک منصوبوں پر نظرثانی کر رہی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم عمران خان اچانک سعودی عرب کیوں گئے؟

انہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ ’اگر اس معاملے پر چین سے مشاورت کی گئی تو چین کا کیا موقف تھا؟‘

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سعودی حکومت نے پاکستان سے سی پیک کے تحت 3 سڑکوں کے انفراسٹرکچر کی مالی معاونت کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔

اس حوالے سے فواد چوہدری نے اس وقت کہا تھا کہ یہ معاہدہ وزیر اعظم کے سعودی عرب کے دورے کے بعد سامنے آیا۔

آج سینیٹ اجلاس کے دوران نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاصل بزنجو نے اس معاملے پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس ریکو ڈک جیسے منصوبے کو سعودی عرب کو دینے کا کوئی اختیار نہیں، یہ منصوبے بلوچستان حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

خیال رہے کہ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے میڈیا کو بتایا تھا کہ رواں ہفتے اعلیٰ سطحی سعودی وفد کے دورہ پاکستان کے بعد مزید معاہدے سامنے آئیں گے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں سعودی عرب کی بھاری سرمایہ کاری کا امکان

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدے سونے اور تانبے کی کانوں ریکو ڈک اور گوادر پورٹ پر آئل ریفائنری کے قیام کے حوالے سے ہوں گے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ دورہ کرنے والا وفد سعودی سرمایہ کاروں کی ٹیم اور وزیر تیل اور وزیر توانائی پر مشتمل ہوگا۔

سینیٹ اجلاس میں حاصل بزنجو نے سوال کیا کہ کیا بلوچستان کی حکومت اور اسمبلی ختم ہوگئی ہے اور اس کے فیصلے وفاقی حکومت کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ بلوچستان کو تنازع زدہ علاقہ بنانے جارہے ہیں، کیا آپ کو سعودی اور ایران تنازع کا علم نہیں، وفاقی حکومت یہ معاہدہ نہیں کر سکتی۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کی معاشی تبدیلیوں سے پاکستان کیسے فائدہ اُٹھا سکتا ہے؟

انہوں نے اعلان کیا کہ جب تک وفاقی حکومت اس معاہدے کی وضاحت نہیں کر دیتی نیشنل پارٹی کے سینیٹرز پارلیمنٹ کے باہر ہر روز ایک گھنٹے کا دھرنا دیں گے۔

علاوہ ازیں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ اسد عمر نے انتخابات سے قبل کہا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے رجوع نہیں کیا جائے اور اب وہ خود کہہ رہے ہیں کہ حکومت کو ضرورت پڑی تو وہ آئی ایم ایف کے پاس جائے گی.

تبصرے (0) بند ہیں